عمران خان پیش نہ ہوں تو ایف آئی اے انہیں گرفتار کرے: مریم اورنگزیب 

عمران خان پیش نہ ہوں تو ایف آئی اے انہیں گرفتار کرے: مریم اورنگزیب 
سورس: File

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ میڈیا، ملک اور عوام فارن ایجنٹ عمران خان اور ان کی فارن فنڈنگ کے اثرات سے آزاد ہو گئے ہیں، اب عمران خان کے اندر جانے کا وقت ہے، اگر ایف آئی اے شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز کو صرف الزامات پر گرفتار کر سکتی تھی تو آج عمران خان کو بھی گرفتار کرنا چاہئے، عمران خان کسی کے سہارے پر چار سال حکومت کرتے رہے، عمران خان نے خود کہا کہ ہمیں ایجنسیوں سے ووٹ ڈلوانے پڑتے تھے، عمران خان لوٹ مار کے ایجنڈے پر تھے، انہوں نے ابھی مزید لوٹ مار کرنا تھی لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے ان کی تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی، ان سے اقتدار چلا گیا تو عمران خان نے کہا کہ ملک میں آگ لگا دو، وہ ملک میں انتشار، فتنہ فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ذمہ دار لوگ آج میڈیا سیمینار میں عمران خان کی تقریر سن رہے تھے، یہ شخص کہتا ہے کہ آزاد میڈیا سے انہیں کوئی خوف نہیں مگر جب میڈیا کی آزادی کا قتل کیا جا رہا تھا تو اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اندر جھوٹ بولنے کا بہت حوصلہ ہے، یہی حوصلہ اور ہمت عمران خان نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کی ہوتی تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر معاشی حالات کو بہتر کرنے میں توانائیاں صرف کرتے تو عوام کی حالت آج بہتر ہوتی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کے منہ سے میڈیا کی آزادی کی باتیں مذاق سے کم نہیں، عمران خان نے اپنے چار سالوں میں صحافیوں پر تشدد کیا اور ان کے پروگرامز بند کئے، ان کے قلم توڑے، میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب گردی کر کے میڈیا کو پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی آواز بند کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے، سی پی این ای سمیت عالمی میڈیا واچ کے اداروں نے بھی عمران خان کے میڈیا مخالف اقدامات کی تصدیق کی، میڈیا واچ کے عالمی اداروں نے عمران خان کو میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے پریڈیٹر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا کالا قانون بنایا جا رہا تھا، اس وقت یہی شخص وزیراعظم تھا، اور اس کے وزیر اطلاعات اور ان کے کرائے کے ترجمان میڈیا پر کمپین کر رہے تھے۔

ابصار عالم، مطیع اللہ جان، اسد طور، نصرت جاوید، غریدہ فاروقی، عاصمہ شیرازی پر حملوں کے وقت عمران خان ہی وزیراعظم تھے۔ امبر شمسی، طلعت حسین، افتخار احمد، نجم سیٹھی، مرتضیٰ سولنگی اور ڈاکٹر دانش کے پروگرام جب بند کئے گئے تو اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے کہا کہ حامد میر کا پروگرام بند کیا گیا، عرفان صدیقی کی اہلیہ پر تشدد کر کے عرفان صدیقی کو گھر کے کرایہ کے جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس اختیار بھی تھا اور کرسی بھی تھی لیکن اس کے باوجود میڈیا کا خوف ان پر طاری تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت حزب اختلاف کو سزائے موت کی چکیوں میں رکھا گیا اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے، عمران خان نے مریم نواز کو ان کے والد کے سامنے ہتھکڑیاں لگائیں، نواز شریف کی اہلیہ کا جب انتقال ہوا تو اس وقت ان کی جنازہ میں شرکت کیلئے رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف کی طبیعت نیب کی کسٹڈی میں خراب ہوئی، جو شکلیں آج پمز میں لیٹی ہوئی ہیں یہ ان کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، جس وقت مرحومہ کلثوم نواز شریف لندن کے ہسپتال میں داخل تھیں تو کہا گیا کہ یہ ہسپتال نہیں ہوٹل ہے، وہ بیمار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ایئر پورٹ پر تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو ان کی بیٹی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا، رانا ثناء اللہ کو جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا، انہیں اس جیل میں رکھا گیا جہاں وہ بیٹھ اور لیٹ نہیں سکتے تھے، شہباز شریف کو دو مرتبہ گرفتار کیا گیا، جیل میں نماز کے لئے انہیں کرسی تک نہیں دی جاتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان چار سال تک ملک پر مسلط رہے، ان کے پاس اختیار بھی تھا، کرسی بھی تھی، تمام ریاستی طاقت بھی اور ریکارڈ بھی لیکن وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کسی قسم کی کرپشن ثابت نہیں کر سکے اور نہ عدالت میں ثبوت دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی فیصلہ دیا کہ شہباز شریف اور سلمان شہباز نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے چار سالہ دور میں مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بی آر ٹی پشاور، ہیلی کاپٹر، فارن فنڈنگ سمیت اپنے خلاف تمام انکوائریاں بند کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے طیبہ گل کی ویڈیو چیئرمین نیب کو دکھا کر انہیں کمپرو مائز کیا، نیب اور ایف آئی اے کو یرغمال بنائے رکھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ عمران خان کے دور میں ملک میں تاریخی کرپشن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پنجاب کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، ہیرے لوٹے اور توشہ خانہ کو لوٹا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان نے ایف آئی اے کے ڈی جی کو وزیراعظم ہائوس بلا کر سیاسی مخالفین کے خلاف انکوائریاں کرنے کا کہا لیکن انہوں نے کہا کہ کیسز نہیں بنتے، اینٹی کرپشن نے جاوید لطیف صاحب کی 90 سالہ بزرگ ماں پر کیسز بنائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جتنے بھی الزامات عائد کئے وہ ایک بھی ثابت نہیں کر سکے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے 351 کمپنیوں سے فارن فنڈنگ لی، وہ اس کیس میں پکڑے گئے ہیں، آج یہ شخص کہتا ہے کہ فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ کی لوٹ مار کا کسی کو کوئی حساب نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان فارن فنڈنگ لے کر ملک میں فساد، فتنہ اور انتشار پھیلاتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہیرے لوٹے جا رہے تھے، تقرریوں پر پیسے کی بوریاں کھولی جا رہی تھیں تو اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے،

اب وہ کہتے ہیں کہ وہ قانون کے آگے پیش نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طاقتور کو قانون کے نیچے آنا چاہئے تو پھر عمران خان کو کیوں نہیں آنا چاہئے، ان سے فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ کا حساب کیوں نہیں لینا چاہئے؟ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا، وہ خود اپنی بیٹی کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد پیشیوں پر آتے رہے، شہباز شریف ہر روز نیب کی عدالت اور ہائی کورٹس میں پیش ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکافات عمل ہے اس وقت جو لوگ تمسخر اڑاتے تھے آج وہ خود ہسپتال میں لیٹے ہوئے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ جو شخص خود فارن فنڈنگ، آٹا چوری میں ملوث ہو اور بشریٰ بی بی اور فرح گوگی کا غلام ہو، وہ ملک کو آزاد کرائے گا؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اپنے ایسے اکائونٹ سامنے آ رہے ہیں جو ڈیکلیئر نہیں ہیں، عمران خان کے پاس جواب نہیں ہے اس لئے وہ کیا جواب دیں گے، عمران خان تماشے بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک فارن ایجنٹ عمران خان اور ان کی فارن فنڈنگ کے اثرات سے آزاد ہو گیا ہے، جنہوں نے ملک میں معاشی تباہی مچائی، میڈیا کی آواز بند کی، آج ملک ان لوگوں سے آزاد ہو گیا ہے، اب عمران خان کے اندر جانے کا وقت ہے، اگر ایف آئی اے شہباز شریف، مریم نواز، سلمان شہباز، سعد رفیق، حمزہ شہباز کو صرف الزامات پر گرفتار کر سکتی تھی تو آج عمران خان کو بھی گرفتار کرنا چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کا چہرہ عوام اچھی طرح جان چکے ہیں، ان کی تمام چوریاں سامنے آ چکی ہیں، کیسز اس وقت ایف آئی اے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ میں عمران خان کا کوئی بندہ پیش نہیں ہو رہا، بہتری اسی میں ہے کہ وہ ریکارڈ دیں ورنہ ریکارڈ لینا ہمیں آتا ہے، اگر وہ پیش نہیں ہوئے تو سن لیں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صوبہ پنجاب کو پچھلے چار سال کے دوران دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، لوگوں کو بے روزگار کیا گیا، فرح گوگی نے اس صوبے کا برا حال کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا،

تحقیقات ہوئیں، عدالت سے ریمانڈ ہوا اور اس ریمانڈ کے خلاف پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس بھیج دی کہ اڈیالہ جیل سے انہیں راولپنڈی کے ہسپتال میں منتقل کیا جائے جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ یہ وفاق کے قیدی ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے تو ان پر دبائو ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس کا ٹکرائو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کسی کے سہارے پر مسلط رہے، انہوں نے خود کہا کہ ہمیں ایجنسیوں سے کہنا پڑتا تھا کہ ووٹ دلوائیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ابھی مزید لوٹ مار کرنا تھی لیکن درمیان میں تحریک عدم اعتماد آ گئی اور انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کے پاس اقتدار نہیں رہا تو انہوں نے ملک میں فتنہ فساد پیدا کرنے کی کوشش کی، جھوٹ بولتے رہے اور اب قانون کے آگے پیش نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون حرکت میں آ چکا ہے، تحقیقات شروع ہو چکی ہیں، فارن فنڈنگ کا ایک بہت بڑا اکائونٹ ان کا پکڑا گیا ہے جس پر وہ کل پریس کانفرنس میں تفصیلات سے آگاہ کریں گی کہ ملک کے ساتھ کتنا بڑا گھنائونا مذاق کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے کیسز میں ریکارڈ نہیں دے رہے، وہ اس سے انکار کر رہے ہیں، بہتری اسی میں ہے کہ وہ ریکارڈ دے دیں ورنہ ریکارڈ لینا آتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف جلد پاکستان آ رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ فارن فنڈنگ کے کیس میں 2008ء سے 2013ء تک کی تحقیقات ہوئی ہیں، اس کے علاوہ بھی ہزاروں کی تعداد میں فنڈنگ آئی تھی جس اکائونٹ کے ذریعے فنڈنگ آتی رہی اس پر ایف آئی اے تحقیقات کر رہا ہے، یہ پایہ تکمیل کو پہنچے گی، ایک ایک روپے کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے حوالے سے ایک کیس کی تحقیقات بھی ایف آئی اے میں شروع ہو چکی ہیں،

جن لوگوں نے پی ٹی وی سپورٹس کا سودا کر کے اے سپورٹس کو فائدہ پہنچایا، سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا، ان سب کو طلب کیا جائے گا، جو بھی اس میں ملوث ہے اسے جواب دینا ہوگا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے میں فرح گوگی اور عمران خان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں ان کیسز میں جواب ہی نہیں دوں گا اور پھر کہتے ہیں کہ طاقتور کو قانون کے نیچے آنا چاہئے۔ یہ چور بھی ہیں، بدمعاش بھی اور ان کی فاشسٹ سوچ ہے۔ اگر انہوں نے چوری نہیں کی تو 2008ء سے پہلے اور 2013ء کے بعد کی فارن فنڈنگ کا حساب دیں۔

انہوں نے کہا کہ جو وزیراعظم توشہ خانہ پر کاروبار کرے اس کا اخلاقی معیار کیا ہوگا؟ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف لے کر پیسے جمع نہیں کروائے اور تحائف فروخت کر کے پیسے جمع کروائے۔ انہوں نے کہا کہ جو تحائف انہوں نے لئے اور انہیں فروخت کیا اور اس سے آنے والی آمدن کو ڈیکلیئر ہی نہیں کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چار سال تک میٹرو پشاور موڑ کا منصوبہ بند رہا، شہباز شریف نے 15 دن میں اس منصوبے کو شروع کیا اور آج اس پر بسیں چل رہی ہیں، یہی وہ خوف تھا جس کے ڈر سے عمران خان نے بغیر ثبوتوں کے الزامات لگائے لیکن آج وہ خود فارن فنڈنگ کے چور ڈیکلیئر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 25 ہزار ڈالر پر امریکہ میں اپنا لابیسٹ رکھا ہوا ہے جو ان کی تشہیر کرے تاکہ انہیں مزید فارن فنڈنگ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب اب بس کر دیں، آپ اتنے جھوٹوں کا حساب کیسے دیں گے۔ ایک اور سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ ماہ سے شہباز شریف نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ہر جگہ پہنچنے کی خود کوشش کی، اپنی سیکورٹی کو کمپرومائز کر کے وہ جھل مگسی گئے اور جا کر دیکھا کہ کیا ریلیف اشیاء وہاں پہنچ رہی ہیں یا نہیں لیکن عین اسی وقت عمران خان اپنا ہیلی کاپٹر لے کر فتنہ اور فساد پھیلانے نکل پڑے۔

ان کا ہیلی کاپٹر سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں بھی جا سکتا تھا لیکن عمران خان کا مقصد سیلاب زدگان کی مدد کرنا نہیں ملک میں فتنہ اور فساد پھیلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف خیبر پختونخوا جا سکتے ہیں تو عمران خان وہاں کیوں نہیں جا سکتے، یہ اس لئے نہیں جا سکتے کہ جہاں اموات ہوں، جنازے اٹھ رہے ہوں وہاں بشریٰ بی بی انہیں جانے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ان کے اپنے دوست فوت ہوئے، یہ کسی کے جنازے میں شامل نہیں ہوئے۔

مصنف کے بارے میں