لاہور : ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان کے زیر اہتمام ایکسپو سینٹر میں سی پاکستان 2022 کا انعقاد کیا گیا جس میں نیشنل سٹارٹ اپ چیمپئن شپ 2022 کے حتمی مرحلے میں شامل ایک سو سے زائد سٹارٹ اپس نے اپنے سٹال لگائے اور ملک بھر سے آئے طلباء نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
سی پاکستان کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ریکٹر، سپئیرئیر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سمیرا رحمٰن نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل پاکستان کا سرمایہ ہے اور یونیورسٹیز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور مضبوط بنانے کے لیے اپنے طلباء کو اس قابل بنائیں کہ وہ نوکری کے پیچھے بھاگنے کی بجائے دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انٹرپرنیورشپ کو رائج کرنے کا سہرا سپیریئر یونیورسٹی کے سر جاتا ہے اور اب تک سینکڑوں سٹارٹ اپنے آئیڈیاز کو منافع بخش کاروبار کا رنگ دے چکے ہیں۔
صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کمیشن راجہ یاسر ہمایوں نے ایپ سیپ کو اس بہترین کاوش پر مبارکباد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری نجی اور سرکاری جامعات کو اس ایکسپو سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ صوبائی وزیر نے چیئرمین ایپ سیپ اور چیئرمین دی سپیریئر گروپ پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمن اور ان کی پوری ٹیم کو اس زبردست اقدام پر مبارک دی۔ اس موقع پر چئیرمن پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا ہمارے طلباء بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور انہیں ہماری رہنمائی اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔
تقریب میں پاکستان بھر سے نجی اور سرکاری یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز، صنعتی شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ اور پبلک ہیلتھ میاں محمد اسلم اقبال نے بھی شرکت کی۔
سی پاکستان شو میں گروپ ڈسکشن کا انعقاد بھی کیا گیا ،مختلف موضوعات پر ہونے والی گروپ ڈسکشن میں ماہرین نے شرکت کی اور اپنی قیمتی آراء پیش کیں۔
سی پاکستان شو میں انٹرپرنیورشپ کی ترویج و ترقی میں جامعات کے کردار، معاشی بحران کے دوران پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کر درپیش چیلنجز، اور کثیر سرمایہ کاری کی بنیاد پر شروع کیے جانے والے سٹارٹ اپس کی ناکامی سے حاصل ہونے والے تجربات کے موضوعات پر مختلف گروپ ڈسکشنز کا انعقاد بھی کیا گیا۔ ان گروپ ڈسکشنز میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین نے حصہ لیا اور اپنی ماہرانہ آرا پیش کیں۔
انٹرپرنیورشپ کی ترویج و ترقی میں جامعات کے کردار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ کرونا وائرس کے پس منظر میں لوگ گھروں میں بیٹھ کر ایک سے زائد نوکریاں بھی کر رہے ہیں۔ بنیادی سکولنگ کو اچھا بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ پہلے سائنسی تجربات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے، ہمیں پہلے پتہ ہوتا تھا کہ پریکٹیکل کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اب اس رجحان میں تبدیلی آ رہی ہے اور اب کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تعلیم پر بھی سنجیدگی سے توجہ دی جا رہی ہے۔
پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کر درپیش چیلنجز کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تکنیکی شعبہ جات میں بے پناہ صلاحیت ہے مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور روز تبدیل ہوتی معاشی پالیسی صنعتی اور کاروباری ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ بھارت کی چار سو ارب کی درآمدات میں سے دو سو ارب آئی ٹی سیکٹر کی مرہون منت ہیں۔ اس وقت پاکستان سالانہ بیس سے پچیس ہزار آئی ٹی گریجویٹس پیدا کر رہا ہے جبکہ آئی ٹی مارکیٹ کو ہر سال ایک لاکھ گریجویٹس کی ضرورت ہے۔
کثیر سرمایہ کاری کی بنیاد پر شروع کیے جانے والے سٹارٹ اپس کی ناکامی سے حاصل ہونے والے تجربات کے حوالے سے ہونے والی پینل ڈسکشن میں گفتگو کرتے ہوئے شرکاء کا کہنا تھا کہ سٹارٹ اپس کیلئے ضروری ہے کہ اچھی پراڈکٹ یا سروسز کی تخلیق پر توجہ دیں۔ اگر آپ کی پراڈکٹ یا سروسز معیاری ہوں، آپ پر عزم ہوں اور تندہی کے ساتھ محنت کریں پھر اس امر سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے مضبوط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ کے پاس کتنا سرمایہ ہے بلکہ کئی مرتبہ یہ چیزیں آپ کیلئے مسائل کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ شروع میں آئی ٹی کے کام کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا، لوگ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ایک ریڈیو بھی نہیں بنایا جا سکتا، یہاں نئی چیزیں بنانا مشکل ہے لیکن لوگ اب کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سٹارٹ اپس اپنے گھر کے اخراجات کی پریشانیوں سے آزاد ہوں تو وہ زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔
گروپ ڈسکشنز کے بعد بیٹل آف بینڈز کے حتمی مرحلے کا انعقاد کیا گیا جہاں پاکستان بھر سے آنے والے طلباء کے بینڈز میں سے تین بینڈز نے یادگار پرفارمنسز دیں جس میں خاک بینڈ نے کامیابی حاصل کی۔ تقریب کے آخر میں ملک بھر سے تشریف لانے والے معزز مہمانانِ گرامی کو یادگاری شیلڈز سے بھی نوازا گیا۔