اسلام آباد: لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی ختم کردی گئی۔حکومت نے تمباکو اور سگریٹ پر مزید 26ارب روپے ٹیکس لگانے کااعلان کردیا۔وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردیں۔29اگست کو میٹنگ ہوگی۔42ارب روپے کا ٹیکس ختم کردیا۔27ارب کا ٹیکس لارہے ہیں۔بجلی پر نان فنڈڈ سبسڈی نہیں دیں گے ۔دوست ممالک سے 4ارب ڈالر کی فنڈنگ حاصل کرلی۔
اسلام آباد میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے غیرضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی لگا دی تھی اور اب اس کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ آئی ایم ایف بھی یہ چاہتا تھا کہ یہ پابندی ہٹائی جائے لیکن ہم نے اس میں تاخیر کی ہوئی ہے کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ہم لگژری آئٹمز کو پاکستان میں آنے کی اجازت دیں جو بالکل درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمارے پاس محدود ڈالر ہوتے ہیں تو ہمارے لیے انتخاب کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہم اس پیسے گاڑی منگوائیں یا آٹا منگوائیں، موبائل فون منگوائیں یا دالیں منگوائیں، اس لیے ہم نے ان اشیا پر پابندی لگائی تھی لیکن اب چونکہ یہ عالمی سطح پر شرط عائد کی گئی ہے کہ یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے تو ہم یہ پابندی ہٹا رہے ہیں لیکن ہم اس پر بھاری ٹیکس عائد کر کے 400 سے 600 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بڑی بڑی مرسڈیز گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹی عائد کریں گے کیونکہ اس وقت میرے پاس وہ ڈالر نہیں ہیں کہ میں مرسڈیز میں خرچ کروں، مجھے اپنے وسائل میں رہ کر خرچ کرنا ہے۔ میرے محدود وسائل ہیں اسے سے میں آئی فون یا گاڑیاں خرینے کے بجائے پہلے آٹا، گندم، کپاس اور خوردنی تیل خریدنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم اس طرح کا سیلز ٹیکس، ٹیکس، ڈیوٹی عائد کریں گے تاکہ اس کی زیادہ درآمد نہ ہو سکے، مکمل طور پر تیار گاڑیاں، مشینری، موبائل فون، الیکٹرانک اشیا، امپورٹڈ گوشت، مہنگی مچھلی سمیت تمام لگژری اشیا پر ڈیوٹی عائد کی جائے گی تاکہ زیادہ امپورٹ نہ ہو سکے تاہم اگر کوئی چھ کروڑ کی گاڑی 30 سے 40 کروڑ روپے میں لانا چاہتا ہے تو وہ لے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد لگژری آئٹمز کو کھولنا نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنا ہے۔بجلی کی قیمت کے حوالے سے بھی معاہدے کی پاسداری کر لی ہے، جو سبسڈی دیں گے وہ فنڈ کررہے ہیں، نان فنڈڈ سبسڈی نہیں دیں گے تو بجٹ خسارے کے ہدف پر کھڑے رہیں گے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم نے جو ریٹیل پر ٹیکس لگایا تھا تو ہمارا تخمینہ تھا کہ ہم اس پر 42ارب روپے ٹیکس حاصل کر سکیں گے لیکن وہ ٹیکس لگانے میں ہم سے غلطی ہو گئی تھی کیونکہ جن دکانوں کا ہزار سے دو ہزار کا بل آتا تھا ہم نے اس پر بھی ٹیکس لگا دیا تھا تو اس کو ہم کو واپس لینا پڑے، اب ہم 42 ارب نہیں لے سکیں گے اور ہمارا نظرثانی شدہ ہدف 27ارب روپے ہے۔
انہوں نے اس ہدف کے حصول کا طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ایک آرڈینسس لے کر آئیں گے جس کے ذریعے ریٹیل پر فکس ٹیکس ہٹا دیا جائے گا، ابھی پانچ فیصد سیلز ٹیکس اور ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس اگلے تین ماہ تک ہر دکاندار کے لیے برقرار رہے گا جس کے بعد یہ صرف ایک سے 50 یونٹ بجلی والوں پر لاگو ہو گا اور اس سے زائد یونٹ والوں کے لیے یہ بتدریج بڑھتا رہے گا، اگر کوئی ہزار یونٹ بجلی خرچ کرے گا تو اس کا سیلز ٹیکس ساڑھے 12فیصد ہو جائے گا، اس کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہو گا۔