بیوروکریسی،کوئی غلام ہے؟

بیوروکریسی،کوئی غلام ہے؟

ملکی انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت اور اتھل پتھل کا سلسلہ گزرے تین عشروں سے ایسا شروع ہوا ہے کہ اللہ معاف کرے،رکنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، اس سے قبل ہماری بیوروکریسی بہت ہی مثالی تھی ، ابھی بھی اس میں اچھے اور کام کرنے والے لوگوں کی کمی نہیں ،شرط ایک ہی ہے انہیں آزادانہ اور سیاست سے بالا تر ہو کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ایک وقت تھا دیگر ممالک کے افسر بڑی تعداد میں تربیت کیلئے پاکستان آتے تھے،اب یہ سلسلہ بہت محدود ہوتا جا رہا ہے اور شاید این ڈی یو میں ہونے والی تربیت اور کورسز تک محدود ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ایسے ہی کسی بھی حکومت کی کامیابی کے پس پردہ بیوروکریسی کار فرما ہوتی ہے،مگرہمارے ہاں حکمرانوں میں اختیارات کی حرص نے نہ صرف بیوروکریسی بلکہ نچلے درجے کی سرکاری مشینری کو بھی مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے،تحریک انصاف حکومت کو تو خیر بیوروکریسی سے کام لینا آیا نہ اعتماد دینا ، اپنی ٹیم بنانے کا ہنر تو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ،ن لیگ نے بیوروکریسی کو دباؤ میں لاکر کام لیا مگر اپنی مرضی اور مفاد میں،ہاں وہ اپنا ایک مضبوط گروپ بنانے میں کامیاب رہے ،پیپلز پارٹی نے البتہ بیوروکریسی سے دشمنی کی نہ ان کو ذاتی ملازم سمجھا مگر ٹیم بنانے میں وہ بھی کامیابی حاصل نہ کر سکی،چودھری پرویز الٰہی کو بیوروکریسی دوست حکمران سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خاموشی سے بیوروکریسی کو اعتماد میں لے کر اپنا کام کئے جاتے ہیں مگر اس مرتبہ25مئی کے سانحہ کے تناظر میں اتحادی تحریک انصاف کو خوش کرنے کیلئے بیوروکریسی کو وہ بھی ولن سمجھ بیٹھے ہیں،یہ رویہ عمومی طور پر کوئی نیا نہیں ہر حکومت نے بیوروکریسی کو اپنا دشمن جانا،افسروں کو سکھانے سمجھانے کی کوشش کی گئی،یہ تیرا وہ میرا افسر کی تقسیم کی گئی،ہر جماعت حکومت میں آتے ہی اپنے وفادار افسر تلاش کرنے کیلئے کنوؤں میں رسے ڈلواتی رہی،وجہ صرف ایک ہے کہ بیوروکریسی ملکی آئین اور محکمانہ قواعد و ضوابط سے کما حقہ آگاہی رکھتی ہے ،وہ حکمرانوں کو کسی بھی غیر آئینی کام سے روکتی اور اس میں ان کی معاونت سے انکار کر دیتی ہے ، نتیجے میں ان کے خلاف عداوت کدورت مخاصمت مخالفت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) تو افسروں کی وفاداری اور ان سے جان پہچان باقاعدہ چیک کر کے ریکارڈ رکھتی ہے، کچھ سال قبل میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ اور حمزہ صاحب ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ تھے،لاہور میں نیا ڈپٹی کمشنر لگانے کا معاملہ درپیش تھا ،وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو رپورٹ ملی کہ ایک افسر نے گوجرانوالہ میں ڈی سی کی حیثیت میں بڑا زبردست کام کیا ہے ،پتہ چلایا گیا اور سابق ڈی سی گوجرانوالہ عامر جان کو وزیر اعلیٰ نے انٹرویو کے بعد سلیکٹ کر لیا اور تھپکی دیتے ہوئے کہا جائیں اور ابھی کام شروع کر دیں ، ساتھ ہی اپنے پی ایس او سمیر سید سے کہا ان کی ملاقات حمزہ صاحب سے بھی کرا دی جائے ،ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چلنا شروع ہوگئے کہ عامرجان ڈپٹی کمشنر لاہور تعینات کر دیئے گئے،حمزہ صاحب کو بتایا گیا تو انہوں نے کہا میں جس افسر کو جانتا ہی نہیں ، مجھے بتائے بغیر لاہور جیسے ضلع میں ان کو کیوں لگا دیا گیا؟ یہاں تو ہمارا اپنا خاص افسر ہونا چاہیے ، ان کے آرڈر روکیں اور ساتھ ہی سمیر سید سے کہا میں آپ کو جانتا ہوں آپ ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں ، کیوں نہ آپ کو ڈپٹی کمشنر لاہور لگاؤں اور ساتھ ہی ان کے آرڈر کرا دیے ،سمیر سید ایک اچھے ،محنتی اور اپ رائٹ افسر ہیں وہ اب بھی وزیر اعظم شہباز شریف کے پی ایس او ہیں،مگر اس آرڈر سے بیوروکریسی کو کیا پیغام دیا گیا ؟یہ تو صرف ایک وا قعہ ہے ایسے بے شمار اور ہیں۔موجودہ حکومت کا بھی ایک ایسا کام سن لیں،انہوں نے حالیہ دنوں میں پنجاب میں کچھ اچھے افسروں کو صرف اس لئے بدل دیا کہ انہیں حمزہ حکومت نے لگایا تھا ، لیفٹیننٹ سہیل اشرف اور علی ناصر رضوی پنجاب میں موجود افسروں کی لاٹ میں اچھے اور محنتی لوگ ہیں اور یہ فیصل آباد میں ڈپٹی کمشنر اور سٹی پولیس افسر کی حیثیت میں بڑی جانفشانی سے کام کر رہے تھے دونوں گو گیٹر افسر ہیں ٹاسک کو نمٹانے تک چین سے نہیں بیٹھتے ، مگر انہیں صرف اس لئے بدل دیا گیا کہ وہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے ضلع میں تعینات تھے ، یہ کیا کرائی ٹیریا ہے پوسٹنگ ٹرانسفر کا ؟ 
مختلف ممالک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے جس ملک میں انتظامیہ مضبوط ، با اختیار اور مستحکم ہوتی ہے اس ملک میں انارکی جنم نہیں لیتی بلکہ ہر شعبہ میں ترقی اور کامرانی ملتی ہے، مگر حکمرانوں نے بیوروکریسی کو ذاتی ملازم سمجھ لیا ہے ، حضور یہ غلام نہیں ہیں ،گورنمنٹ سرونٹ نہیں پبلک سرونٹ ہیں، یہ بیوروکریسی ہی ہے جو کسی حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے،حکومت اور عوام میں رابطے کا کام کرتی ہے اور اس کیساتھ ریاست کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، بیورو کریسی دراصل انتظامیہ ہوتی ہے جو امور مملکت کو حکومتی پالیسیوں اور قوانین کے تحت چلاتی ہے، عوامی مسائل کے حل، عوامی خوشحالی کیلئے کام کرتی اور نظم و نسق قائم رکھتی ہے دنیا بھر میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کے معاملہ میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں مگر ہر حکمران جماعت نے من مانی کی،سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ قوانین کی اہمیت ثانوی ہوگئی، لہٰذا سمجھا جانے لگا کہ بیوروکریسی کی سوچ عوامی نہیں اور وہ عوامی مسائل کا بہتر حل نہیں دے سکتی، نتیجے میں قانون سازوں نے تمام اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیا ،اب ترقی تبادلے پوسٹنگ کیلئے اصول قانون کارکردگی نہیں، بلکہ سیاسی پشت پناہی اہمیت اختیار کر گئی ہے بیوروکریسی کاترقیاتی کاموں، مہنگائی،قیمتوں پر کنٹرول اور عوامی مسائل کے فوری حل میں بھی بنیادی کردار ہوتا ہے اور آزادی سے قبل سے یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے اب بھی اگر حکومت کو ڈیلیور کرنا ہے، تو اپنے منشور کے مطابق عوام کو سہولیات دینا ہیں، عوام کو فوری انصاف دینا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو بیورو کریسی کو بااختیار بنانا ہوگا، بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی بہتربنانے کے لئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کو وفاق جانے سے روک لیا گیا ہے ،یہ موجودہ حکومت کا قابل تحسین فیصلہ ہے ،میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ عمران سکندر بلوچ جیسے محنتی افسر کو ایک غیر اہم محکمہ میں بھیج کر حکومت نے اپنا نقصان کیا ہے،اچھا ہوا ،وہ فیصلہ بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور انہیں صحت جیسے اہم سیکٹر کا سیکرٹری لگا دیا گیا ہے جہاں اس سے قبل بھی انہوں نے بہترین کام کیا ہے۔اس وقت ہمارے پاس ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کی صورت میں کیپٹن اسد اللہ ایک سینئرنڈر،محنتی اور اپ رائٹ افسر ہیں ، خبر ہے سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری علی مرتضیٰ بھی جلد اپنا عہدہ سنبھال لیں گے۔

مصنف کے بارے میں