موروثیت بادشاہی طرز حکومت کی پہچان ہے جس میں مسند اقتدار پر بیٹھنے کے لیے کسی قابلیت نہیں بلکہ شاہی النسل سے ہونا ضروری ہے۔ شاہی النسل کا کردار اور قابلیت چاہے صفر ہو لیکن اس کو اپنے ہی معاشرے کے ہر قابل شخص پر فوقیت دی جائے گی۔ یقیناً یہ بہت بڑی نا انصافی تھی جس کے خلاف اٹھنے والی آوازیں جب تحریک بن گئیں تو اقتدار میں عوام کی شرکت کے لیے جمہوری نظام کی ترویج کی گئی۔ یہ نظام مختلف اشکال میں دنیا بھر میں نافذ کیا گیا لیکن اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ عوام اپنے ووٹوں سے براہ راست اپنے حکمران منتخب کریں۔ اس نظام کے نفاذ کے بعد عوام کو ملوکیت یا بادشاہ کی غلامی سے نجات مل گئی۔ جمہوری نظام چلانے کے لیے سیاسی جماعتیں بنائی گئیں جن کی اپنی قیادت بھی ووٹ سے منتخب ہونا مشروط ٹھہری۔ یقیناً موروثیت جمہویت کی نفی ہے، جمہوریت میں موروثیت کوئی گنجائش نہیں لیکن پھر بھی وطن عزیز میں جمہوریت میں موروثیت کے پنجے بادشاہت سے بھی گہرے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی قابل ذکر سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی میں موروثی نظام نافذ نہیں۔ جبکہ ان کے سوا باقی تمام سیاسی پارٹیاں بشمول پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، اے این پی اور جمعیت علماء اسلام بات تو جمہوریت کی کرتی ہیں لیکن ان کی جماعتوں کے اندر جمہوریت عنقا ہے۔ اسی لیے ان کی پارٹی کی قیادت کے لیے ان کی رگوں میں بھٹوز، شریفس، مولانا اور خانز کا خون ہونا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی اولادوں کے علاوہ ان جماعتوں میں کوئی اور قیادت کے قابل نظر نہیں آتا۔ حقیقت میں سیاسی جماعتوں میں ملوکیت نے ان کو قیادت کے حوالے سے بانجھ بنا دیا ہے جہاں صرف بغیر کسی ویژن کے محض موروثی قیادت ہی نکلتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے مملکت خداداد پاکستان کے نظام کوچلانے کے لیے جمہوریت کو ہی چنا اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوی نظام کی ترویج کا کہا۔ لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد ان کی اپنی جماعت ان کے سکھائے ہوے سبق کو بھول کر اقتدار کی رسہ کشی میں لگ گئی اور جمہوری نظام کے بجائے ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا ہی ان کی زندگی کا مشن بن گیا۔ نتیجتاً پاکستان نے ایوب خان کا طویل مارشل لا کا دور دیکھا۔ پھر ملک کی فوجی قیادت کو ایسی لت پڑی کہ اس نے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کو اپنی پیشہ ورانہ مشقوں کا حصہ بنا لیا۔ کبھی یہ کھلم کھلا مارشل لا لگا کر عنان حکومت سنبھال لیتے اور کبھی ’’دستانے‘‘ پہن کر درپردہ حکومتی نظام چلاتے اور سیاسی قیادت اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہمیشہ تختہ مشق بنتی رہی۔ جمہوری نظام سے روگردانی کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں کمزور ہوتی چلی گئیں جس
کی بنیادی وجہ ان کا مقصد ہر قیمت پر اقتدار کا حصول ہی تھا چاہے وہ فوجی بوٹوں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی بنیادی وجہ جمہویت سے فرار اور موروثیت کے طرف جھکاؤ تھا۔ جب قیادت میرٹ کے بجائے موروثیت سے چنی جائے تو وہیں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
پاکستانی سیاست میں موروثیت کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت رکھی جب انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو کا اپنا جانشین بنا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو بے پناہ صلاحیتوں کی مالک تھیں اور انہوں نے فوجی آمر کے خلاف قید و بند، جلاوطنی اور تشدد برداشت کیا۔ یقیناً ان کی اس ملک اور عوام کے لیے جدوجہد اور بے شمار خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرف سے جانشین مقرر ہونے کے بجائے پیپلز پارٹی بطور جماعت انہیں جمہوری طریقہ سے بذریعہ پارٹی انتخابات منتخب کرتی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ بے نظیر جیسی شخصیت کو پیپلز پارٹی میں منتخب ہونے سے کون روک سکتا تھا لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے یہ نہ ہونے دیا۔ گو کہ پارٹی قیادت کا یہ انتخاب اتمام حجت ہی ہوتا لیکن کم از کم ایک مثال قائم ہو جاتی اور جس بھونڈے طریقے سے ایک مشکوک وصیت کو بنیاد بنا کر پارٹی قیادت بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے حوالے کی گئی کم از کم یہ نہ ہوتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ پارٹی قیادت کس سے خوفزدہ تھی؟ بلاول بھٹو یا آصف زرداری کو انٹرا پارٹی انتخابات سے بھی منتخب کرایا جا سکتا تھا لیکن ’’ملوکیت‘‘ کے اثرات خون میں شامل تھے اس لیے جمہوری طریقہ کار پر شب خون مارا گیا۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ اس وقت بلاول بھٹو اور آصف زرداری کو پارٹی میں ووٹ کے ذریعے منتخب کرانے کا اس لیے رسک نہیں لیا گیا کہ ناہید خان گروپ سامنے آ سکتا تھا جس سے پارٹی اختلافات سامنے آتے۔ بعد ازاں ایک ایک کر کے ہر تنقیدی آوازکو آصف زرداری نے پارٹی سے نکال باہر کیا اور آخر میں مراثیوں کی فوج رہ گئی جس کا کام اپنے لیڈر کی دھن پر بس ناچنا تھا۔ جو لیڈر اپنی پارٹی میں جمہوری عمل اس لیے نہیں اپناتا کہ اسے اپنی ہی جماعت کے کسی لیڈر سے خوف ہے تو وہ ملکی معاملات کیسے چلائے گا۔ اسی لیے آصف زرداری فیئر پلے کے بجائے اپنی شاطرانہ چالوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔
اس کے بعد سیاسی جماعتوں میں ملوکیت کا نفاذ مولانا مفتی محمود نے ڈالا اور مسند اقتدار ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کے حصے میں آئی۔ مولانا کی نظر صرف اقتدار پر ہی رہی اور وہ ضیاالحق سے مشرف اور اس کے بعد نواز شریف سے آصف زرداری تک ہر حکومت کا حصہ رہے۔ صرف عمران خان کے دور میں ان کے لیے اقتدار کے دروازے بند تھے اور اس دور میں انہیں اس وقت تک چین نہ آیا جب تک وہ ایک سازش کے بعد اقتدار میں نہ آ گئے۔ آصف زرداری کی طرح انہوں نے بھی اپنی جماعت میں ایک ایک مخالف آوازکو دبایا اور بڑے بڑے ناموں کو اپنی جماعت سے نکال باہر کیا۔ ان مخالف آوازوں کا مطالبہ تھا پارٹی میں ملوکیت کے بجائے جمہوریت کی ترویج کی جائے۔ مولانا نے حفظ ماتقدم کے تحت اپنے بعد اپنے بیٹے سعد محمود کو جانشیں مقرر کرنے کی راہ ہموار کی۔
خان عبدل ولی خان جمہوریت پسند اور لبرل سیاستدان مانے جاتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنی جماعت میں جمہوریت کے بجائے ملوکیت کو ترجیح دی۔ انہوں نے اپنے بیٹے اسفند یار ولی کو نامزد کر دیا اور سونے پر سہاگہ کہ اسفند یار ولی نے جمہوری روایات کے برعکس اپنے بیٹے ایمل ولی خان کو پارٹی سربراہ نامزد کر دیا۔
اب بات کرتے ہیں مسلم لیگ ن کی جس کے قائد نواز شریف سیاسی جماعتوں میں ملوکیت کی انتہا کر دی۔ گو کہ خاندانی اور اندرونی اختلافات اور پارٹی میں دراڑیں گہری ہونے کی وجہ سے نواز شریف نے ابھی تک اپنے سیاسی جانشین کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا لیکن یہ طے ہے کہ وہ جو بھی ہو گا نواز شریف کے خاندان سے ہو گا اور یہ پگ کسی اور کے سر پر نہیں جا سکتی۔
ان کے وارثان میں ان کی بیٹی مریم نواز کے علاوہ برادر صغیر شہباز شریف بھی دعویدار ہیں اور اسی سلسلے میں عم زاد حمزہ شہباز شریف بھی لائن کے آخر میں کھڑے ہیں لیکن بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ان کی کارکردگی کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت نے ان کا پتہ کاٹ دیا ہے۔
برادر خورد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی خدمات بھی بڑے بھائی سے کم نہیں اس لیے بھائی کے بعد ان کا حق بنتا ہے۔ شہباز شریف نے اپنی اس آواز میں مسلم لیگ ن پاکستان کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے جبکہ مسلم لیگ لندن ان کے اس حصار کو توڑنے کے جتن کر رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ موروثی جماعتوں میں اختلافات اصولوں کے بجائے وراثت پر ہوتے ہیں اس لیے ان کے گھر کے اندر برتن ٹوٹنے کی آوازیں چار دام پھیل جاتی ہیں۔ ابھی تو نواز شریف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ناراض ہو کر میٹنگ سے چلے گئے لیکن وہ وقت دور نہیں جب وہ کچھ لوگوں کو پارٹی یا حکومتی عہدوں سے ادھر ادھر کرنے کا حکم دیں اور مسلم لیگ پاکستان ان کے احکامات ماننے میں لیت و لعل سے کام لے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ وراثت کے معاملے پر پارٹی دو ٹکڑے ہو سکتی البتہ اس کھینچا تانی کا نقصان بہر حال مسلم لیگ کو ہونا اٹل ہے۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ فی الوقت اگر پارٹی قیادت کا قرعہ مریم نواز کے نام نکلا تو مسلم لیگ ن کے بطن سے ایک اور جماعت جنم لے سکتی ہے۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔