اس وقت موجودہ سیاسی صورتحال کا موازنہ کریں تو ابھی تک اقتدار کی کھینچا تانی برقرار ہے تو دوسری طرف ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے جلد قسط ملنے اور دوست ممالک کی جانب سے مزید تعاون کی یقین دہانی کی امید باندھے ہوئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ عوام کو بہتر معیشت کی نوید بھی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلا قرض گورنر جنرل غلام محمد نے لیا اس سلسلے کو بڑھوتی ملی اور قرض کا نہ رکنے والے سفر کا آغاز ہو گیا جو آج بھی قائم ہے۔ اب جو قابل غور بات ہے وہ یہ کہ اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہتری کہ طرف لانے کی طرف تو کسی کا بھی دھیان نہیں اور اقتدار کی کھینچا تانی میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ ہے ملکی معیشت اور عام عوام کا۔ دوسری طرف اگر اس امید پہ حکمران ہیں کہ آئی ایم ایف کی قرض کی قسط مل جائے گی تو معیشت پہ مثبت اثرات سامنے آئیں گے کوئی بھی ماہر معاشیات بھی اس بات پہ یقین نہیں کرے گا، وہ اس لیے کہ جب قرض ڈالر کی صورت میں ملتا ہے چند روز تک تو بہتری نمایاں دکھائی دیتی ہے مگر جیسے ہی اُس پیسے کو ترقیاتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کیا جاتا ہے تو مارکیٹ میں یکدم ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے اُس کمی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ڈالر کا ریٹ بڑھتا ہے ویسے ویسے قرض میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کا نقصان فوری طور پہ سٹاک مارکیٹ پہ پڑتا ہے اور مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے، صورتحال بے قابو ہوتی ہے تو پھر سے ایک نیا قرض لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جس پہ غور کرنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے۔
ٹھیک ہے اس وقت ملکی صورتحال کو بہتری کی طرف لانے کے لیے صرف قرض ہی واحد حل بچتا ہے مگر یہ مستقل حل نہیں ہے اور حکمرانوں کو بھی اس حل کو مستقل نہیں سمجھنا چاہیے، بعض اوقات تو ہمارے بہت سے سیکٹر ایسے ہیں جن کے ملازمین کو تنخواہیں بھی ادا کرنے کے لیے ہمیں قرض کے لیے آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے مگر افسوس آج تک کسی نے اس قرض سے نجات کا مستقل حل نہیں نکالا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ آخری آپشن قرض ہی رہ گیا ہے مگر میں آج اپنے کالم میں اُن حکمرانوں کو مخاطب کر کے یہ بات کہنا چاہوں گی کہ اس قرض کو اس طرح مختلف کاموں پہ یا سڑکیں بنا کر ضائع مت کریں بلکہ اس قرض سے مختلف انڈسٹریز لگائیں جس سے ملکی معیشت پہ نا صرف
مثبت اثرات مرتب ہونگے بلکہ روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو ملیں گے تیسرا کہ اُس انڈسٹری سے حاصل ہونے والے پیسے سے ترقیاتی کام کیے جا سکتے ہیں اور اُس سے ہم اتنا زرمبادلہ بھی کما کر قرض نہ صرف واپس کر سکتے ہیں بلکہ آنے والے وقت میں ہم قرض سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
مگر افسوس! آج تک اس طرف نہ تو ان کی توجہ جاتی ہے اور نہ ہی کوئی پلاننگ ہے۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے اب ہمارے ملک کی معیشت کی ترقی کا موازنہ صرف ڈالر کی قیمت کے زیادہ یا کم ہونے سے ہی لگایا جاتا ہے اپنی نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی پلاننگ کیونکہ مختلف تجزیہ کار ا س بات کو ڈسکس کر رہے ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 214 کے قریب پہنچ گیا ہے، تین ہفتے پہلے ملک میں ڈالر 240 روپے کی بلند ترین سطح پہ پہنچ چکا تھا۔
سٹاک مارکیٹ پر بھی حالیہ پیش رفت کے مثبت اثرات نمایاں ہیں۔اس طرح قریب تین ماہ کی بحرانی کیفیت کے بعد معیشت کی سرنگ کے سرے پر روشنی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں مگر قرض کے زور پہ یہ پیدا ہونے والا استحکام محض وقتی سہارا ہے۔ مستحکم معیشت کے لیے قرض کے سہاروں کے بجائے معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ ملک میں ترقی اُس وقت ہی ممکن ہے جب حکمران صنعتکاری کی طرف توجہ دیں گے۔
اسی خطے کے متعدد ممالک کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، وہ ممالک جو وسائل کے اعتبار سے ہم سے بہت پیچھے تھے صنعتی ترقی کی اُٹھان نے انہیں چند برس میں ابھرتی ہوئی معیشت کا درجہ دلا دیا، ایک ہمارا ملک ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی قرض کے ڈالروں کے حاجت مند ہیں، بنگلا دیش اور ویتنام جیسے ممالک جو 90ء کی دہائی تک پاکستان سے پیچھے تھے، مگر آنے والے وقتوں میں غیر معمولی طور پہ آگے بڑھتے گئے جبکہ ہمارے ہاں پیداوار یکسانیت جمود کا شکار رہی۔
معیشت خاص طور پر برآمدی معیشت کے حساب سے ہمارے ہاں بنگلہ دیش کو توجہ سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کیلئے صنعتی نمو کا سبق سیکھنے کیلئے ویتنام کی مثال بر محل ہے۔وہ ملک جو50ء سے 70ء کی دہائی تک داخلی تصادم اور بیرونی حملوں کا شکار رہا،پھر ویتنام 80ء کی دہائی میں میں تعمیر نو کی جانب متوجہ ہوا۔ ان اصلاحات میں ویتنام کے اہم فیصلوں میں ایک تھا، کہ ملک کو عالمی منڈی کے بجائے بر آمدی معیشت کے طور پہ مستحکم کیا جائے۔ نتیجتاً صنعتکاری کیلئے معیشت کو کھولا گیا اور ان امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک سے صنعتی سرمایہ کاری کا رُخ اس ملک کی طرف ہونا شروع ہوا 90ء کی دہائی کے وسط میں ویتنام کی صنعتی نمو 12 سے 14 فیصد تھی جو رواں صدی کے 17% سے تجاوز کر گئی اور سالانہ بر آمدی نمو 2001ء میں 3.8% تھی جو 2010ء میں 26% تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد اس ملک نے کسی کی طرف نہیں دیکھا اس وقت دنیا کی سپلائی ،چین میں ویتنام ایک قابل ذکر شراکت دار کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے۔ اگر ایسے ممالک اپنے داخلی انتشار کے باوجود ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے پالیسیاں بنا کے ترقی کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ اگر ہم اپنے ہی خطے کے ممالک کی پالیسیوں کا ہی موازنہ کرنا شروع کر دیں تو ہم بھی اپنے ملک کی معیشت کو بہتری کی ڈگر پہ لا سکتے ہیں صرف ہم لوگوں کو کچھ اپنا آپ بدلنا ہو گا اگر ہم چند ہی چیزوں پہ عمل کر لیں تو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ سکتے ہیں۔
نمبر ایک ہم اپنی معدنیات کو بروئے کار لائیں جن کو ہم نے حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوا ہے اگر اس پہ عمل کر لیں تو ہمیں قرضوں سے نہ صرف نجات مل سکتی ہے بلکہ ہم بہت سا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ دوسرا ہمارے حکمرانوں کو سب سے زیادہ اپنا آپ بدلنے کی ضرورت ہے وہ اس لیے جمہوریت میں ہم صرف سیاسی نورا کشتی ہی دیکھتے آئے ہیں اُن کو اس چیز کو بھی ختم کر کے ترقیاتی کاموں کی طرف دھیان دینا ہو گا جو بے حد ضروری ہے۔ اگر ان دو باتوں پہ بھی عمل کر لیں تب بھی کافی حد تک بہتری کی امید ہے۔
جب بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا ہوتا ہے اُن کی سخت شرائط کو ماننا پڑتا ہے تو اس کا بوجھ عام آدمی پہ پڑتا ہے اُس کی مثال عالمی مارکیٹ میں تیل سستا ہو رہا ہے مگر ہمارے ملک میں پیٹرول 6 روپے مزید مہنگا کر دیا گیا ہے افسوس! بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کا کہہ دیا گیا ہے اب اگر ان دونوں کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جائے گا تو لازماً مہنگائی آسمان کو ہی چھونے لگے گی اور ہم اپنی صنعتکاری کو اپنے ہاتھوں سے لاغر کر دیں گے کیونکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہماری چیزوں کی ڈیمانڈ عالمی منڈیوں میں نہیں رہے گی تو ہمارے ملک کی معیشت مزید کمزور ہو گی۔
جب جب آئی ایم ایف کے آگے کشکول جائے گا معیشت لاغر ہوتی چلی جائے گی اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد ایسے پروجیکٹ شروع کیے جائیں جس سے ہم ان قرضوں سے نجات حاصل کر سکیں۔