کابل: افغان طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد اپنے ہی خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کی حفاظت کر کے نئی تاریخ رقم کر دی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے اس اقدام کی تعریف کی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چند خواتین نے طالبان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عورتوں کو سیاسی اور بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔ کابل کے ایک چوک میں کئے جانے والے اس احتجاج کے دوران خواتین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن کا مطالبہ تھا کہ خواتین کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین نے چہرے بھی نہیں ڈھانپ رکھے تھے اور وہ طالبان کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہی تھیں لیکن یہ دیکھ کر سب ہی حیران رہ گئے کہ وہاں موجود طالبان جنگجو اپنے خلاف احتجاج کے باوجود ان خواتین کی حفاظت کرتے رہے۔
First reported women’s protest in Kabul following the takeover by the Taliban:
— Leah McElrath ????️???? (@leahmcelrath) August 17, 2021
Four women holding handwritten paper signs stand surrounded by armed Taliban fighters
Indescribable courage:pic.twitter.com/1HtpQ4X2ip
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ میڈیا آزاد ہے اور تمام ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جبکہ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے حوالے سے تین تجاویز بھی دیں۔
افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ پہلی تجویز یہ ہے کہ میڈیا کی نشریات اسلامی اقدار سے متصادم نہیں ہونی چاہئیں۔ دوسری تجویز ہے کہ میڈیا کی نشریات غیر جانبدار ہونی چاہئیں البتہ ہم تنقید کو خوش آمدید کہیں گے جبکہ تیسری تجویز ہے کہ اس دوران قومی مفادات کے خلاف کچھ بھی نشر نہ کیا جائے اور میڈیا افغانستان میں قومی بھائی چارے کو فروغ دے۔
خواتین سے متعلق گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں، ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسلام کے دائرے کے اندر خواتین کو تمام حقوق فراہم کئے جائیں گے جبکہ خواتین اسلامی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں، خواتین ہمارے معاشرے کا معزز حصہ ہیں اور انہیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت ہے۔