ذکر کا مدعا فکر ہے، اور فکر ہمیں آمادہئ ذکر کرتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فکر ایک خاموش ذکر ہے اور ذکر ایک بولتا ہوا فکر!! ذکر ایک دعویٰ ہے، فکر ایک نظریاتی وابستگی ہے---- فکر ایک ایسی نظریاتی وابستگی ہے، جس میں دل اور عقل یکجائی میں ہم نوائی کرتے ہیں۔ ذکر اور فکر کے بعد ہی انسان ایک مبنی بر شعور عمل کی شاہراہ پر جادہئ منزل ہوتا ہے۔ ذکر سے فکر تک، اور پھر فکر سے عمل تک سفر--- ایک ایسا سفر ہے، جو راستے میں دم نہیں توڑتا۔ یہ سفر اپنی منزل دُور نہیں --- شرط صرف یہ ہے کہ مسافر مایوس نہ ہو، دوسرے مسافروں سے جھگڑا نہ کرے اور وہ مادّی نظامِ فکر کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے۔ آج کے دَور میں جس نے اپنے نظامِ فکر پر مادّے کی حکمرانی قبول کر لی، اُس نے گویا یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ یزید اور اہلِ شام مادّی نظامِ فکر کی علامت ہیں۔ جنابِ حسینؓ اور اہلِ مدینہ روحانی اور اخلاقی نظامِ فکر کے داعی ہیں۔ کرب و بلا کا یہ واقعہ محض دو شخصیات یا دو قبیلوں کا تنازع نہیں، اور نہ ہی یہ حصولِ اقتدار کی کوئی جنگ تھی۔ مدینہ سے کربلا کے پڑاؤ تک یہ سارا سفر دراصل دو نظریات کا ٹکراؤ تھا۔ ایک طرف امام عالی مقامؓ اپنے نانا، ہادیئ دو عالم، شہر علمؐ کی عطا کردہ آسمانی ہدایت کے نمائندہ ہیں اور اپنے والد ِ گرامی، دَرِ علم ابوترابؓ کے فکری ورثے کے جانشین ہیں ---- اور دوسری طرف شامی حکمران ہیں، جو قیصر وکسریٰ کی طرز پر سنگ و خشت کے محلات کی تعمیر میں مصروف ہیں اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی لیے ہر وہ کام کر گزرنے کے لیے تیار ہیں جس کی نظیر نہ کہیں دین میں ملتی ہے اور نہ ہی کتابِ انسانیت سے۔ اِدھر خانوادہئ نبوّ ت و رسالت ؐ کا بچہ بچہ، جوان، خواتین اور عمر رسیدہ بزرگ، سب کے سب کتابِ انسانیت میں بابِ حریت رقم کر رہے ہیں۔
عارفین کہتے ہیں کہ کربلا کا قافلہ رکا نہیں، آج بھی رواں دواں ہے، آج بھی جو شخص روحانی و اخلاقی اقدار کا امین ہو گا، مادّی نظامِ فکر کی قوتیں اُس کا جینا محال کر دیں گی، اُسے کوفہئ ملامت سے گزرنا ہو گا، اسے شامی صفت لوگوں کی طعن و تضحیک برداشت کرنا ہو گی، اسے اپنے حق سے محرومی برداشت کرنا ہو گی اور اپنے ظرف کے حسبِ حال دشت ِ کرب و بلا میں آبلہ پیمائی اُس کا مقدر ہو گی۔ اگر وہ اس پر راضی رہتا ہے، شکوہ و شکایت کا راستہ اختیار نہیں کرتا، تو وہ بالیقین اس قافلے کا حصہ گنا جائے گا… ایسا قافلہ کہ جس کا غبار بھی جسے نصیب ہو جائے وہ خوش نصیب کہلاتا ہے، انعام یافتہ لکھا جاتا ہے اور حکمت کے خیر کثیر سے اُس کا دامن بھر دیا جاتا ہے۔ اِس راہ کے راہرو کو جلوہئ دانشِ فرنگ خیرہ نہ کر سکے گا کیونکہ اِس کی آنکھ میں خاکِ مدینہ و نجف کا سرمہ لگا دیا جاتا ہے۔
ذکرِ حسینؓ ایک شوق ہے، فکرِ حسینؓ ایک ذوق ہے۔ شوق اور ذوق دونوں کا بلند آہنگ ہونا ضروری ہے، تا آن کہ شاہراہِ مستقیم پر انسان مستقم ہو سکے۔ جان لیجئے کہ یہی راہ ہے، جو سیدھی ہے، یہی انعام
یافتگان کی منزل ہے اور عارفینِ حق اسی راہ پر جادہ پیما ہوتے ہیں … یہ اپنے پیش رو کے قدم پر ہوتے ہیں اور اپنی استقامت کی وجہ سے اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے ایک سنگِ میل بن جاتے ہیں۔ سلسلہ بہ سلسلہ یہ تمام سلسلے دَرِ علمؓ کی وساطت سے شہر علمؐ میں جا ملتے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ فقر کے بہتر(72) درجے ہیں اور میدانِ کربلا میں یہ تمام کے تمام درجے طے ہوئے۔
واقعہ کربلا صرف ایک دینی درس ہی نہیں، یہ ایک مکمل درسِ انسانیت ہے۔ اِس کی یاد، ذکر اور فکر تک رسائی کے لیے قاضیوں اور مفتیوں سے فتویٰ نہ لیا جائے بلکہ اپنے باطن میں اس کا ربط تلاش کیا جائے، ضمیر انسانیت میں اس کا جواز ڈھونڈا جائے۔ اس قیمتی پیغام کو مسلکی اور گروہی تعصبات کی نذر نہ کیا جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ خانوادہ نبوت و ولایت پوری اُمت ِ مسلمہ کا سرمایہ ہے، اِ س خانوادے سے مؤدّت کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کا ہر حکم قیامت تک کے لیے نافذ العمل ہے۔ سیاسی اور سماجی مجبوریاں کسی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتیں۔ اگر کسی کو ذکر حسینؓ میں پنہاں فکر حسینؓ کے سوتوں تک معنوی رسائی میسر نہیں آ رہی ہے، تو وہ ذکرِ حسینؓ کا جواز قران میں موجود حکم ”مودۃ ذی القربیٰ“ ہی میں تلاش کر لے---- اس آیت مبارکہ میں رسولِ پاک ؐ کو وحی کی جا رہی ہے کہ آپؐ انہیں کہہ دیں، میں تم سے رسالت کا اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے عزیز و اقرباء کے ساتھ مؤدّت اختیار کرو۔ مستند احادیث مبارکہ میں درج ہے کہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دو اور انہیں اہلِ بیت کی محبت سکھاؤ۔ مؤدت، محبت سے کم درجے کا جذبہ ہے، اِس کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ اہل بیت اور جملہ سادات کو عوام الناس کی صف میں کھڑا نہ کیا جائے۔ خالقِ کائنات نے اپنے حبیبؐ کے نسب کو یہ عزت و تکریم دی کہ عوام الناس کا صدقہ و زکوٰۃ اِن پر حرام کر دیا، ہمیں مخلوق ہونے کے ناتے یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ہمارے ہاں یہ ایک عجیب رواج بن چکا ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر متنازع گفتگو کا آغاز ہو جاتا ہے، ہر طرف ایک دانشورانہ اور مجتہدانہ پند و نصائح کا طومار لگ جاتا ہے---- ذکر ایسے نہیں، ایسے ہونا چاہیے، یاد اس طرح نہیں بلکہ اس طرح منانی چاہیے، محبت کے تقاضے یوں نہیں بلکہ یوں پورے ہوتے ہیں، اور یہ کہ یہ لفظی ترکیب اس طرح نہیں بلکہ اس طرح سے باندھنی چاہیے، الغرض اس لایعنی بحث میں ہم ذکر اور فکر دونوں سے دُور ہوئے جاتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ہم محبت اور عقیدت کے بجائے اہلِ بیت کی بے مثل قربانیوں کو محض سیاسی تناظر میں دیکھنے کی جستجو کرتے ہیں۔ تاریخی واقعہ جیسا بھی ہو، اگر تاریخی شخصیت سے محبت و مؤدت کا رشتہ نہ ہو گا تو ساری گفتگو ایک بے تعلق فلسفہ بن کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی توجیہات تلاش کرنے والے تلاشِ حق میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ بے تعلق فلسفہ اور تاریخ تو غیر مسلم بھی پڑھتے رہتے ہیں اور اپنے طور ریسرچ کرتے رہتے ہیں، لیکن انہیں کلمہ اور کلمے والوں کی نسبت نصیب نہیں ہوتی۔ بات ریسرچ کی نہیں، سرچ کی ہے۔ ریسرچ واقعات اور افراد کی ہوتی ہے، سرچ یا تلاش،حق کی ہوتی ہے۔ حق کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حق، حق کو نہیں کاٹتا۔ مردانِ حق اپنے سے پہلے گزرنے والے حق پرستوں کے ساتھ ربط اور رابطے میں ہوتے ہیں۔ ایسی تحقیق جو ماضی سے منقطع کر دے، وہ عام طور پر گمراہ کن ہوتی ہے۔ راہِ حق، راہروانِ حق کے چلنے اور کہنے سے ترتیب پاتا ہے۔ حکم ہے”کونو مع الصادقین“ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ مرشدی حضرت واصف واصفؒ فرماتے ہیں کہ سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔ اب یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ حق پرست کون تھے، اور اُن کے مقابل میں آنے والے کون ہیں۔ آج ہم اپنے رائے کا ووٹ جس کیمپ کی طرف کاسٹ کرتے ہیں، اگر ماضی میں ہمیں وہ زمانہ ملتا تو ہم اسی کیمپ کا حصہ ہوتے۔ بس اپنی سوچ کے گریبان میں جھانک کر ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ ہم کدھر کھڑے ہیں، معترفین کی جانب یا معترضین کی طرف؟
حکیم الامّت اس معاملے میں ایک پُرحکمت فرقان قائم کر گئے
حقیقتِ اَبدی ہے مقامِ شبیّری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی