کربلا کے میدان میں خواتین کے کردار کے حوالے سے ہم عموماً جناب زینبؑ اور اُن کے ساتھ معروف پاک بیبیوں کا ذکر پڑھتے ہیں۔ ان کے مقام کوتو کوئی بشر نہیں پہنچ سکتا لیکن کربلا میں کئی غیرمعروف اور عام خواتین نے بھی نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کی قیادت میں اہم کارنامے سرانجام دیئے۔ ان خواتین سے مراد وہ عام خواتین ہیں جو واقعہ کربلا سے چند روز پہلے دوسری دنیاوی خواتین کی طرح امور خانہ داری، زیب و زینت، لباس، پرورش اولاد اور اپنی ہمسایہ عورتوں سے گفتگو وغیرہ میں مصروف تھیں۔ یعنی یہ ذکر ان خواتین سے متعلق ہے جن کا سید الشہدا حضرت امام حسینؓ کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ البتہ ان کا حضرت امام حسینؓ سے عقیدے اور ایمان کا مضبوط رشتہ تھا۔ اسی روحانی تعلق کی وجہ سے انہوں نے اپنے شوہروں، بھائیوں اور بچوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قربانی کے لیے پیش کردیا اور آخر میں خود ان خواتین نے بھی سید الشہداؓ پر اپنی جانیں نثار کردیں۔ تاریخ کی کتابوں میں کربلا کی ان عام مگر اہم خواتین کا ذکر کم ملتا ہے۔ آئیے آج انہی میں سے کربلا کی کچھ بہادر خواتین کا ذکر کرتے ہیں۔ ”الشیخ محمد مہدی شمس الدین“ کی مشہور کتاب ”انقلاب حسینؓ“ میں تحریر ہے کہ ”عبداللہ بن عمیرؓ نے اپنے ارادے سے اپنی زوجہ کو آگاہ کیا کہ ”میں حسینؓ کے ساتھ جاملنا چاہتا ہوں“۔ ان کی زوجہ نے کہا ”آپ نے بہترین فیصلہ کیا ہے، خدا آپ کی رہنمائی فرمائے۔ اپنے معاملات کو درست کیجئے اور حسینؓ کی نصرت کے لیے نکلئے اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلئے“۔ چنانچہ وہ اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر امام حسینؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ روز عاشورا جب وہ لڑنے کے لیے نکلے تو ان کی زوجہ نے ہاتھ میں خیمے کا ڈنڈا لیے ہوئے اپنے شوہر سے کہا ”میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ اپنی جان نواسہ رسول پر نثار کردیں“۔ عبداللہ بن عمیرؓ نے بہت کوشش کی کہ ان کی زوجہ عورتوں میں واپس چلی جائیں مگر بے سود۔ اُن کی زوجہ نے اُن کا دامن پکڑ کر کہا ”میں آپ سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گی جب تک آپ کے ساتھ شہید نہ ہو جاؤں“۔ سید الشہدا حضرت امام حسینؓ نے یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا ”اے بی بی! تجھے اہل بیت کی طرف سے جزائے خیر ملے، تو عورتوں میں واپس آجا اور خواتین کے خیمے میں بیٹھ جا“۔ ان محترم خاتون نے امام حسینؓ کی اطاعت کی اور خیمے میں واپس آگئیں۔ جب عبداللہ بن عمیرؓ شہید ہو گئے تو وہ ان کے سرہانے پر پہنچیں اور ان کے چہرے سے مٹی صاف کرکے کہا ”جنت آپ کے لیے مبارک ہو“۔ شمر مردود نے اپنے رستم نامی غلام سے کہا ”لاٹھی سے اس خاتون کا سر پھاڑ دو“۔ چنانچہ اس بدبخت غلام نے لاٹھی کا وار کیا جس سے وہ خاتون شہید ہوگئیں۔ اس طرح وہ اصحاب حسینؓ میں سب سے پہلی شہیدہ قرار پائیں۔ وہب بن حباب کلبیؓ سے ان کی ماں نے کہا ”بیٹا! اٹھو اور نواسہ رسول اور ان کی آلؓ کی مدد کرو“۔ وہ اٹھے اور یزیدی لشکر پر حملہ آور ہوئے اور کچھ دشمنوں کو جہنم رسید کرکے خیمے کی طرف واپس آئے اور کہا ”ماں! کیا اب آپ میرے سے خوش ہیں؟“ ماں نے کہا ”میں راضی نہیں ہوں۔ میں اس وقت راضی ہوں گی جب تم حسینؓ کی راہ میں شہید ہو جاؤ گے“۔ اس وقت ان کی زوجہ نے کہا ”خدارا مجھے سوگوار نہ بناؤ“۔ ماں نے وہبؓ سے کہا ”بیٹا اس کی باتوں میں نہ آاور واپس جاکر نواسہ رسول کی راہ میں جنگ کر تاکہ قیامت کے دن ان کے جدؐ کی شفاعت کا مستحق بن سکے“۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ گئے اور لڑتے رہے۔ یہاں تک کے ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور پھر وہ شہید ہوگئے۔ جنادہ بن حارث سلمانیؓ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا میں حسینی لشکر کے ساتھ موجود تھے۔ وہ لڑتے ہوئے جب شہید ہوئے تو ان کی زوجہ نے اپنے نوعمر بیٹے عمروؓ سے کہا کہ جاؤ حسینؓ کی مدد کرو اور دخترِ رسول کے فرزند کی راہ میں لڑو۔ چنانچہ وہ نکلے اور حضرت امام
حسینؓ سے اجازت چاہی۔ اس پر آپؓ نے فرمایا ”تو ابھی نوجوان ہے۔ تیرا باپ بھی شہید ہوچکا ہے۔ شاید تیرے جنگ کرنے پر تیری ماں راضی نہ ہو“۔ نوجوان نے عرض کیا ”میری ماں نے ہی مجھے تیار کرکے بھیجا ہے“۔ چنانچہ وہ نوعمر جانباز میدان میں نکلے، جنگ لڑی اور شہید ہوگئے اور یزیدیوں نے ان کا سرکاٹ کر امام حسینؓ کے لشکر کی طرف پھینک دیا۔ ان کی ماں نے ان کا سر اٹھا کر کہا ”آفرین اے بیٹے“ اور خیمے کا ایک ڈنڈا لے کر یہ رجز یعنی جنگی شعر پڑھا ”اے میرے آقا! میں ایک ضعیف العمر ناتواں اور کمزور بوڑھی ہوں مگر بدبخت دشمنو! فاطمہ زہراؓ کی اولاد کی راہ میں تم پر کاری ضرب لگاؤں گی“۔ اس کے بعد ان بہادر ماں نے دشمن
کے دو آدمیوں کو قتل کیا اور جناب سید الشہداؓ نے ان کو خیمے میں بلاکر ان کے حق میں دعائے خیر کی“۔ کربلا کی اِن بہادر خواتین کے بعد اُس عظیم پاک بی بیؓ کا ذکر بھی ضروری ہے جن کے بغیر کربلا کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ امام حسینؓ کربلا جاتے ہوئے راستے میں خزیمہ نامی مقام پر پہنچے اور ایک دن اور ایک رات وہاں قیام کیا اور آرام فرمایا۔ اسی جگہ صبح سویرے جناب زینبؓ امام حسینؓ کی خدمت میں تشریف لائیں اور عرض کیا ”بھائی! کسی غیبی آواز سے مجھے یہ دو شعر سنائی دیئے ہیں جو میری پریشانی اور تشویش میں اضافے کا سبب ہیں“۔ اس کے بعد انہوں نے وہ شعر پڑھے جن کا مفہوم کچھ یوں تھا۔ ”اے میری آنکھوں اب کوشش کرو اور رونے کے لیے تیار ہو جاؤ کیونکہ میرے علاوہ کون ہے جو شہیدوں پر گریہ کرے گا۔ ان لوگوں پر رونے کے لیے جنہیں تقدیر میں لکھے خطرات اور مشکلات وعدے کی وفا کی طرف لے جا رہے ہیں“۔ امام حسینؓ نے جناب زینبؓ کی تشویش کے جواب میں محض ایک جملے پر اکتفا کیا، جی ہاں صرف ایک جملے پر۔ وہ مختصر جملہ یہ تھا ”اے بہن! جو خدا نے مقدر کیا ہے وہ ہوکر رہے گا“۔ واقعہ کربلا کا ایک تجزیہ ذرا مختلف انداز سے کریں تو پوری انسانی تاریخ سوگوار ہو جاتی ہے۔ وہ ایسے کہ تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے لیکن کسی کی اولاد کو ایسے بیدردی سے قتل نہیں کیا گیا جیسے وجہ تخلیق کائنات نبی آخری الزماں رسول خدا حضرت محمدؐ کے نواسے اور ان کے پیاسے خاندان کو کیا گیا۔ اِن ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی کے خاندان کی پاک خواتین کو ایسے بازاروں میں رسوا نہیں کیا گیا جیسے سرور کونین خاتم النبیین حضرت محمدؐ کے نواسے کے خاندان کی پاک بیبیوں کو کوفے کے بازاروں میں رسوا کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پوری انسانیت کو محرم کے آنے کی اطلاع خودبخود ہو جاتی ہے کیونکہ:
آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اک ہجوم
شاید غمِ حسینؓ کا موسم قریب ہے