اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک اور واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم نے کلیئر کر دیا تھا کہ جب تک فلسطینیوں کو حق نہیں ملتا تو اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ واضح ہو جانا چاہیے کہ ہمارا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، پاک چین دوستی، اسرائیل، مسئلہ کشمیر، افغان امن عمل، معیشت، خطے کی صورتحال، ملکی مسائل اور سیاست سمیت مختلف ایشوز پر گفتگو کی۔
دوران انٹرویو وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کو ماننے کو میرا ضمیر کبھی نہیں مانے گا۔ اسرائیل کے بارے ہمارا موقف بڑا کلیئر ہے۔ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ اگر ہم اسرائیل کوتسلیم کر لیں گے تو پھر کشمیر بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اسرائیل اور فلسطین بارے ہم نے اللہ کو بھی جواب دینا ہے۔
پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ واضح ہو جانا چاہیے کہ ہمارا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چین نے ہر اچھے برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ چین کو بھی پاکستان کی بڑی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے مغربی ممالک بھارت کو چین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چینی صدر نے رواں سال مئی میں پاکستان آنا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے دورہ تاخیر کا شکار ہوا۔ آئندہ سردیوں میں چینی صدر شی جن پنگ کا دورہ پاکستان متوقع ہے۔
سعودی عرب کیساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کردار مسلم دنیا کو تقسیم نہیں اکٹھا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی خبریں بالکل غلط ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔
ایک اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پہلے امریکا جنگ کے لیے پاکستان کو استعمال کرتا تھا اور آج ہم امن کے شراکت دار ہیں۔ افغانستان میں امن عمل میں ہم پارٹنر ہیں جبکہ دنیا میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں تین دفعہ کشمیر پر بحث ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ میری ساری زندگی جدوجہد میں گزری اور میں نو سال کی عمر سے جدوجہد کر رہا ہوں۔ ہسپتال بنایا لیکن سیاست بہت بڑی جدوجہد تھی۔ میں نے دو پارٹی سسٹم کے بعد تحریک انصاف بنائی۔ جب کوشش کرتے ہیں تو اونچ نیچ سے خوف نہیں آتا۔ گزشتہ دو سالوں میں سمجھا کہ کس طرح کے چیلنجز تھے۔
انہوں نے کہا کہ مدینہ پہلی فلاحی اور ایک منفرد ریاست تھی جہاں سب کے لیے قانون برابر تھا۔ پاکستان بھی اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر بنا تھا۔ میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پاکستان کے تمام سکولوں میں 8ویں اور 9ویں کلاس کے بچوں کو نبی ﷺ کی زندگی بارے پڑھایا جائے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو غریب طبقے کو اوپر لانا ہوگا۔ پاکستان میں چھوٹے سے طبقے کے لیے مراعات ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ اقتدار سنبھالا تو معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی، ادارے تباہ ہو چکے تھے۔ پاکستان میں سسٹم ایسا ہے کہ پیسے دے کر سب کام کروایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے لیے رکاوٹیں جبکہ طاقتور پیسے دے کر سارے کام کروا لیتا ہے۔ ایلیٹ کلاس اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ جب نیب بلاتا ہے تو کہتے ہیں ملک تباہ ہو گیا۔ ایلیٹ کلاس اسی لیے مسلسل دو سال سے حکومت کو گرانے کے چکر میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انرجی کے مسائل کا سوچ کر سونا مشکل ہے۔ صرف بجلی کی ڈسٹریبیوشن، چوری اور لائن لاسز کم کرنا مسئلے کا حل نہیں، جب تک بجلی کی پیداواری قیمت نیچے نہیں لائی جائے گی مسئلہ مکمل حل نہیں ہوگا۔ ہم ایسے معاہدوں میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے تحت بجلی لیں یا نہیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔ ہم عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں اور بجلی کی قیمت نہ بڑھے تو گردشی قرضے بڑھ جاتے ہیں، حکومت بجلی کی قیمت بڑھائے تو عوام پس جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل صنعت سے وابستہ ہے کیونکہ جب تک ہم صنعتی ملک نہیں بنتے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پچھلے سال 2 ہزار ارب قرضوں کی قسط میں ادا کیے، اس سال 2 ہزار 700 ارب کرنے ہیں۔ جب تک ہم صنعتی ملک نہیں بنتے یہ قرضوں کی ادائیگی بڑھتی ہی جائے گی۔ ہم اب حکومت کے پاور پلانٹس میں بننے والی بجلی کی قیمتوں کو بھی نیچے لائیں گے۔ حکومتی پاور پلانٹس اور ڈسٹری بیوشن کو بہتر بنانے سے متعلق منصوبہ لا رہے ہیں۔ حکومت ایک وسیع اور جامع پاور پالیسی لے کر آ رہی ہے۔ پاور پالیسی تقریباً تیار ہے اور ایک یا دو ہفتے میں عوام کے سامنے لے کر آئیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب میں نہیں پیسے بنا رہا تو کسی کو بھی نہیں بنانے دونگا۔ دو سال ہو گئے ہیں کہ عثمان بزدار بارے کبھی کوئی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ، میں عثمان بزدار بارے آئی بی سے ایک، ایک الزام چیک کرواتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار پر شراب لائسنس کیس مذاق ہے۔ شراب لائسنس بارے پوچھنا ایکسائز کا کام ہے۔ بڑے صوبے کے چیف منسٹر کو نیب میں بلا کر شک پیدا کر دیا گیا۔ اگر کوئی کیس تگڑا ہے تو سب سے پہلے میں کہوں گا کہ عثمان عہدہ چھوڑ دو۔
انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کا پرابلم یہ ہے وہ زیادہ میڈیا میں نہیں جاتے اور خود دفاع نہیں کرتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اندر بھی ایسے لوگ ہے جو وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور ان پر جس طرح حملے کیے جاتے ہیں افسوس ہوتا ہے۔ عثمان بزدار پر رنگ روڈ کا بھی الزام لگایا گیا۔
وزیراعظم کا عثمان بزدار کا ایک بار پھر دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب میں ہماری پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی۔ ہماری پارٹی کے پاس وفاق اور پنجاب میں اقتدار کا تجربہ نہیں تھا، غلطیاں تو ہونی تھیں۔ پنجاب میں شریف خاندان کی لگائی ہوئی بیوروکریسی ہے۔ پنجاب میں اب صیح کمبی نیشن پر پہنچ گئے ہیں، اب سسٹم صیح چلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب صیح سمت میں جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب پہلی بار چیف منسٹر بنے تو لفافہ پہنچانے سے پہلے پریس کانفرنس نہیں کرتے تھے۔ عثمان بزدار سیکھ رہے ہیں اور ان دو سالوں میں میں نے بھی سیکھا ہے، مجھے بھی سمجھنے میں وقت لگا اور سارے صوبوں کا جائزہ لے رہا ہوں تاہم پنجاب بڑی تیزی سے آگے جا رہا ہے۔
پاکستان میں وبائی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں 13 مارچ کو ہم نے لاک ڈاؤن کیا۔ اس وقت یورپ میں کیسز بڑھ رہے تھے اور وہاں مکمل لاک ڈاؤن تھا۔ یورپ کی صورتحال دیکھتے ہوئے ہمارے یہاں بھی مکمل لاک ڈاؤن کا شور مچا۔ پہلے دن سے سوچا کہ مکمل لاک ڈاؤن کے نتیجے میں غریب کا کیا ہوگا؟ شروع سے کہا کہ ہمارے حالات یورپ والے نہیں ہیں لیکن مجھ پر سخت تنقید کی گئی۔ ہماری نیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ہمیشہ غریب کو ترجیح دیں۔ مجھے ہماری جماعت کے کئی لوگوں نے لاک ڈاؤن کا کہا لیکن میں نے مزاحمت کی۔
تحریک انصاف کے اہم لیڈر اور سیاسی رہنما جہانگیر ترین کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میرے ساتھ سب سے زیادہ جدوجہد انہوں نے کی۔ بدقسمتی سے جب انویسٹی گیشن کی تو جہانگیر ترین بھی بیچ میں آ گئے۔ ان کا نام سامنے آنے پر مجھے بڑا افسوس ہوا۔ لیڈر کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ لیڈرشپ میں ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اگر یہ چیزیں نہیں ہونگی تو پھر لیڈر پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے ابھی کوئی جرم نہیں کیا، کمیشن کی فائنڈنگ بارے ادارے فیصلہ کریںگے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں کسی مافیا کا حصہ نہیں ہوں۔ نئے پاکستان کا مقصد کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھانے والوں کو پکڑنا ہے۔ میری زندگی کا مشن مافیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ لوگ پکڑے جائیں تو بلیک میل کرتے ہیں، عدالتوں میں جاتے ہیں۔ مافیا متحد ہو کر دباؤ ڈالتا ہے۔ کمیشن رپورٹ پر شوگر ملز ایسوسی ایشن حکم امتناع لے آئی۔
شہر قائد کے مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کو دیکھتا ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ 80ء کی دہائی میں لسانیت کی سیاست نہ ہوتی تو کراچی بہت ترقی کرتا۔ متحدہ بانی کے گن کلچر نے کراچی میں بہت تباہی مچائی۔ کراچی کے نقصان سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ کراچی کا مسئلہ لوکل گورنمنٹ سسٹم نہ ہونا ہے۔ کراچی کے لوکل سسٹم کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ہمارا کیس چل رہا ہے۔ کراچی کا میٹروپولیٹن سسٹم ہونا چاہیے۔ کراچی کے بہت برے حالات ہیں۔ کراچی کے حوالے سے ہم فیصلے کرنے والے ہیں، حالات اب بہتر ہونگے۔
ان کا کہنا تھا کہ ذخیرہ اندوزی کرکے پیسہ بنایا جاتا ہے ملک میں ہر جگہ کارٹل بنے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ پر لوگ قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے اوپر نیچے کرتے ہیں۔ شوگر کمیشن کی جب فرانزک انکوائری ہوئی تو بروکرز فرنٹ مین نکلے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے واجد ضیا کو لیٹر میں دھمکی دی۔ یہ اکٹھے ہو کر پریشر ڈالتے ہیں۔ ہم نے کسانوں کا سوچ کر ریٹ دیا۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ پر سٹے آرڈر لے آئی۔
اپوزیشن کے چارٹر آف اکانومی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے، کیا میں بھی مشرف کی طرح دے دوں؟ اپوزیشن رہنماؤں کا مقصد مجھے بلیک میل کرنا ہے۔ اپوزیشن کی ترامیم کا مقصد ہی این آر او ہے۔ اگر میں ان کو این آر او دے دوں تو بڑی غداری کرونگا۔ ملک تباہ تب ہوتا ہے جب وزیراعظم اور وزرا کرپشن کریں۔ جن ممالک میں غربت ہے اس کی وجہ کرپشن ہے۔ جب ملک کا وزیراعظم کرپشن کرتا ہے تو اسے ایسے وزرا رکھنا ہوتے ہیں جو ساتھ مل کر کرپشن کریں۔ اگر احتساب سے پیچھے ہٹ گئے تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میرے لیے بڑا آسان تھا کہ ان سے سمجھوتہ کرتا تو بڑی آسانی سے حکومت چلتی۔ پہلے کرپشن، اب چوری کو بچانے کے لیے فیٹف جیسے قوانین کیلئے بھی بلیک میل کر رہے ہیں۔
پائلٹس کے جعلی لائسنس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں 260 پائلٹ کے مشکوک لائسنس کا پتا چلا۔ پچھلے دس سالوں میں پائلٹس کی غلطیوں کی وجہ سے چار حادثات ہوئے۔ تاہم پائلٹس کا معاملہ جیسے پیش کیا گیا اس سے بہتر ہو سکتا تھا۔ میں نے سمجھایا تھا کہ میڈیا میں جب پیش کریں تو بہتر طریقے سے پیش کریں۔ جعلی لائسنس کا معاملہ جیسے پیش کیا ہماری غلطی تھی۔ انکوائری رپورٹ جو سامنے آئی بڑی خوفناک تھی۔ ایوی ایشن کا اسٹرکچر ہی غلط تھا۔ سول ایوی ایشن ریگولیٹر ہے اسےعلیحدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے چیزوں میں تاخیر ہوئی۔ ادارے کو تباہ کرنے میں وقت نہیں لگتا ٹھیک کرنے میں لگتا ہے۔ پی آئی اے میں غلط بھرتیاں کرکے سٹرکچر کو تباہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، ملک میں پہلے خاندانی پارٹیاں تھیں، ہم تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کو ٹھیک کرنے میں لگے گا، تبدیلی ایک رات میں نہیں آتی۔ کئی چیزیں جلدی کچھ چیزوں کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ پہلا سال بہت ہی مشکل سال تھا، مشکل وقت سے نکل گئے، اسی سال فرق نظر آئے گا۔ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ مشکل وقت نکل چکا ہے، آنے والا وقت میں بہتر ہی بہتر ہوتا جائے گا۔ بہتری نظر آئے گی، جو 1960ء والا پاکستان ترقی کر رہا تھا، اس طرح ترقی نظر آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ پنشن پر کبھی کسی حکومت نے کام نہیں کیا، پنشن کی وجہ سے ہمارا سارا ملک ہی دب رہا ہے۔ پنشن کے حوالے سے پورا پروگرام لے کر آئیں گے، ہم پنشن فنڈز بنائیں گے۔ دنیا میں پنشن فنڈز ہے، اس حوالے سے ملائیشیا سے بھی سیکھ رہے ہیں۔