نئی دہلی: بھارت نے توانائی اور ٹیلی کام شعبوں میں سخت تجارتی قوانین متعارف کرا دیئے جس کا مقصد انتہائی حساس شعبوں میں چین کی شمولیت پر نظر رکھنا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین سے تعلق رکھنے والی ہاربن الیکٹرک، ڈونگ فونگ الیکٹرونکس، شنگھائی الیکٹرک اور سیفانگ آٹو میشن بھارت کے 18 شہروں میں توانائی کی رسد کے انتظامات اور آلات فراہم کرنے کے معاملات سے منسلک ہیں۔ بھارت کی مقامی کمپنیاں طویل عرصے سے توانائی کے شعبے میں چینی شمولیت کے خلاف لابنگ کر رہی تھیں۔ سیکیورٹی خداشات کی نشاندہی کرتے ہوئے مقامی کمپنیوں کا کہنا تھا کہ اس کے بدلے میں چین کی مارکیٹ میں ان کو رسائی نہیں دی جا رہی۔
یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری ہے جبکہ حالیہ تنازع نے چینی تجارت کو محدود کرنے کے حوالے سے وزیراعظم نریندر مودی کی انتظامیہ کو سہولت فراہم کر دی ہے جو سائبر حملے سے خوف زدہ ہیں۔ بھارتی حکومت ان دنوں سینٹرل الیکٹرک سٹی اتھارٹی (سی ای اے) کی جانب سے ترتیب کی گئی پالیسی رپورٹ پر غور کر رہی ہے جس میں توانائی کی رسد کے معاہدوں کے لیے ہونے والی نیلامی پر نئی شرائط شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ فروخت میں مقامی کمپنیوں کو سہولت فراہم دی جا سکے۔
مذکورہ رپورٹ کے ڈرافٹ کی تیاری میں شامل ایک افسر کے مطابق رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں یہاں کم سے کم 10 سال سے کام کر رہی ہوں۔ اس کے اعلیٰ ایگزیکٹو عہدوں پر بھارتی شہریوں کو تعینات ہونا چاہیے اور اس غیر ملکی فرم کے ملازمین بھارت میں ایک مخصوص عرصے سے رہ رہے ہوں۔ ان کمپنیوں کو اپنے رسد کے نظام میں استعمال ہونے والے خام مال کی تفصیلات بتانا ہوں گی اور اگر اس میں کسی قسم کی تبدیلی ہوئی تو اس کمپنی کو مزید کام سے روک دیا جائے گا۔
رپورٹ میں چائنا کو براہ راست تو نشانہ نہیں بنایا گیا تاہم حکام کا کہنا تھا کہ یہ تجاویز چین کو بھارت میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے روکنے کے لیے ہیں کیونکہ سیکیورٹی خطرات کا خدشہ ہے۔ سی ای اے کے چیئرمین آر کے ورما کا کہنا تھا کہ مذکورہ پالیسی رپورٹ کی تیاری میں بھارت پر ہونے والے مبینہ سائبر حملوں کو کم کرنے کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سائبر حملے چیلنج ہیں‘ بھارت میں توانائی کی رسد کے آلات برآمد کرنے والی چائنا کمپنی کے ایک نمائندے نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ بھارتی کمپنیاں طویل عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر غیر ملکی کمپنیوں کو کام سے روکنے کی خواہشمند تھیں۔
اخبار نے ان کے حوالے سے کہا کہ اب دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ ہے اور پرانا وقت واپس آ گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور بھارت توانائی سرمایہ کاری تعاون کو مکمل طور پر پابند کرنا انتہائی غیر حقیقی ہے جبکہ بھارت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
خیال رہے کہ شنگھائی الیکٹرک، ہاربن الیکٹرک، ڈونگ فونگ الیکٹرونکس اور چین کی سرکاری کمپنی چائنا سدرن پاور گرڈ کمپنی لمیٹڈ بھارت میں موجود اور یہاں مزید سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں لیکن بھارت کے نئے سرمایہ کاری قوانین پر بھیجی گئی ای میل کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں