اسلام آباد:سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آرمی ایکٹ میں سویلینز کو شامل کرنا مقصود ہوتا، تو اس کا واضح طور پر ذکر کیا جاتا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف فوجی اہلکاروں کے لیے ہے اور سویلینز کے لیے اس میں کوئی خصوصی دفعہ نہیں۔
دوران سماعت، جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ اگر سویلین کسی فوجی تنصیب پر حملہ کرتے ہیں تو اس کا کیا قانونی جواز ہو گا۔ اس پر خواجہ حارث، وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کا نظام آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے اور یہ صرف جنگ کے دوران نہیں، بلکہ امن کے وقت بھی نافذ العمل ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اس بات پر زور دیا کہ 1973 کا آئین مضبوط دستاویز ہے جو آئینی حقوق اور عدلیہ کے نظام کی حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری کا قانون آئین سے متصادم ہو سکتا ہے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر خواجہ حارث کا شکریہ ادا کیا اور کیس کی آئندہ سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی، جس میں اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔