اقتدار آنی جانی شے، خوش بختی کا ہما کبھی کسی کے سر پر کبھی کسی کے، ترقی یافتہ ممالک میں اقتدار کی منتقلی اتنی پُر امن ہوتی ہے کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی وجہ؟ وہاں اقتدار کے لیے قبضہ مافیا نہیں جن ملکوں میں قبضہ مافیا موجود ہے وہ بد قسمت، جمہوری لحاظ سے پسماندہ، اقتصادی طور پر کسی شمار و قطار میں نہیں ہوتے۔ اربوں، کھربوں کے قرضے، مہنگائی، بد انتظامی، بد عنوانی اور منتقم مزاج حکمران عوام کا مقدر بن جاتے ہیں مشاعرے لوٹنے والے مرحوم شاعر نے کہا تھا اور سچ ہی کہا تھا کہ ’’جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے، کرائے دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہیں‘‘ ہمارے یہاں کے سیاستدان کچھ ہی عرصہ میں مالک مکان بننے کی تگ و دو میں لگ جاتے اور اقتدار سے محرومی کا عذاب سہتے ہیں، اقتدار سے چمٹا شخص خود دار نہیں خود غرض ہوتا ہے۔ آئین پر شب خون مار کر غداری کا مرتکب ہوتا ہے ملک میں حالات بدل گئے یا بدلے گئے چہرے بدلے تو جانے والوں کے ساتھ پوری قوم کے تیور بھی بدلنے لگے۔ انکشاف ہوا کہ توشہ خانہ سے غیر ملکی تحائف نکال کر بیچ دیے گئے۔ اپنوں نے کہا توشہ خانہ سے گھڑی خریدی دبئی جا کر بیچ دی۔ بد عنوانی کہاں ہوئی۔ بہی خواہوں نے تاویل پیش کی کہ غریب وزیر اعظم نے دہائی دی تھی کہ ایک لاکھ 97 ہزار میں گزارہ نہیں ہوتا کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ لنگر خانے سے تو کھانا منگوانے سے رہا۔ مجبوراً توشہ خانہ کا رخ کیا اور سامان کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر کروڑوں میں بیچ دیا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان سڑکوں پر ہیں۔ شہر شہر جلسے بلکہ بڑے جلسے جو لوگ کمر توڑ مہنگائی سے رتی برابر متاثر نہیں ہوئے وہ ان کے شیدائی، اتنے جانثارون کو سامنے پا کر حوصلہ بڑھا ہے کہ ’’با وفا لوگ میرے شیدائی، آپ کہتے ہیں بے وفا ہوں میں‘‘ مسئلہ بتدریج ٹیڑھا ہوا ہے۔ سب ایک پیج پر تھے مشیروں وزیروں کے بہکاوے میں آ کر آخر خود سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ دوریاں بلا وجہ پیدا نہیں ہوتیں۔ ’’کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں‘‘ ایسے میں آئین اقتدار سے نکالنے کے سو راستے بتا دیتا ہے، عمران خان نواز شریف کی طرح پانامہ کا ہوا کھڑا کر کے اقامہ کے مقدمہ میں تاحیات نا اہل قرار نہیں دیے گئے۔ ن لیگ کے سربراہ کا گلا شکوہ بجا تھا کہ مجھے کیوں نکالا۔ اس کا مذاق اڑایا گیا خود پر افتاد پڑی تو جیب سے خط نکال کر لہرا دیا، بیرونی سازش قرار دیا، مجھے اس نے نکلوایا۔ ’’ان کا خط آنے لگا گویا کہ خط آنے لگا‘‘ کسی نے لکھا کس نے بھیجا وصول پا کر 20 دن جیب میں رکھ کر بھول گئے تحریک عدم اعتماد نا کام ہو جاتی تو خط کا ذکر تک نہ ہوتا۔ امریکا اتنا بے وقوف اور احمق کب سے ہو گیا کہ خط لکھ کر کسی خود مختار ملک کے وزیر اعظم کو اقتدار سے نکال باہر کرے، اس کے پاس سو طریقے،خفیہ ادارہ مخالفین کو محبت نامے ارسال نہیں کرتا خاموشی سے تختہ الٹ دیتا ہے۔ یا ہم جیسوں کے ذریعے مخالف سپر پاور کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیتا ہے ’’گڑ سے
مرے تو زہر کیوں دو‘‘ فارمولے پر قائم ہے ہم کچھ نہیں کر پاتے تو کوسنے دینے لگتے ہیں سیدھی سی بات ریاست مدینہ کے نام پر قوم کو مہنگائی، قرضوں، بد انتظامی، کرپشن اور اربوں ڈالر کے تجارتی اور کرنٹ خسارے کے جو تحفیدیئیگئے ان سے پوری قوم چیخ و پکار پر مجبور ہوئی کاش وزیر اعظم اپوزیشن کو چور ڈاکو قرار دے کر ہنستے رہنے کے بجائے پیٹ پر پتھر باندھے بھوکے بچوں کو بیچنے کے لیے سڑکوں پر کھڑے والدین اور بچوں کو بھوک سے بلبلاتے دیکھ کر نہروں میں پھینکنے والے والدین کی حالت زار کا معائنہ کر لیتے تو بخدا یہ نوبت نہ آتی، ریاست مدینہ کے والیؐ (آپؐ پر ہم اور ہمارے والدین قربان) غریب امتیوں کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جایا کرتے تھے آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی ریاست کو فلاحی بنانے کے لیے اقدامات کیے لنگر خانے نہیں کھولے کلہاڑی اور رسی دے کر محنت مشقت سے روزی کمانے کا درس دیا۔ خود غرضی نہیں خودداری سکھائی۔ ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ آپ جناب کے سارے کام آقائے دو جہاں کے فرمودات کے منافی اس پر استفسار کہ مجھے اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ رات بارہ بجے عدالتیں کیوں کھلیں، تحریک عدم اعتماد آپ کے اتحادیوں نے کامیاب بنائی ساتھ رہتے تو کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ نمبرز پورے ہونے کے بعد آئینی طور پر وزیر اعظم سیاسی منظر سے ہٹ جایا کرتے ہیں، لوگ تو بہت پہلے سے کہا کرتے تھے کہ ’’اللہ رے کپتان کا انداز سیاست، آتا نہیں ہے کھیل مگر کھیل رہے ہیں‘‘۔ عدالت عظمیٰ نے وکٹ اکھاڑ کر بھاگنے سے روکا، کھچڑی پک رہی تھی تو آگ کی تپش محسوس تو ہوئی ہو گی اسی وقت سیاسی بصیرت سے کام لیا ہوتا تو آگ پر پانی ڈالا جا سکتا تھا جب سب کچھ ہو چکا تو شہر شہر جلسوں پر اتر آئے۔ پشاور اور کراچی کے جلسوں میں تیور بدلے نظر آئے کسی نے کہا ’’تقریر کر رہا ہے کوئی چیخ چیخ کر، کچھ بھی نہ ہو بیان میں زور بیاں تو ہے‘‘ بار بار خط لہرانے سے کیا فائدہ ہوا۔ خط کی بنیاد پر اقتدار سے محروم کرنے کے بیانیے کی حمایت میں دو فیصد کمی ہو گئی، گیلپ سروے کے مطابق اس بیانیے کے حامی عوام کی تعداد 36 سے 34 فیصد رہ گئی جبکہ مہنگائی کے باعث مخالفین کی تعداد 64 سے 66 فیصد ہو گئی۔ باتوں کے تیر چلانے کے بجائے اگر حقائق پر غور کر لیا جائے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کر کے تازہ دم میدان میں نکلیں تو اب بھی لوگ محبتیں نچھاور کریں گے لیکن وعدے کر کے بھول جانے کی عادت اور غیر جمہوری طرز عمل ہی سابق وزیر اعظم کو لے ڈوبا۔ ’’آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غورکریں‘‘ پنجاب اسمبلی میں کیا ہوا۔ لوٹے چلے، مکے چلے، ڈپٹی سپیکر کے بال کھینچے گئے، کون لوگ تھے؟ چودھری پرویز الٰہی نے کہا لوٹے چلنا معمول کی بات ہے پولیس کیوں آئی؟ نہ آتی تو خدانخواستہ بڑا حادثہ ہو جاتا پرویز الٰہی بھی بازو تڑوا بیٹھے۔ حیرت کی کیا بات ہے ان کے آزو بازو پہلے ہی ٹوٹ چکے تھے اب تو نتیجہ آنا باقی تھا۔ یہ سب کیا ہے؟ جمہوریت کا حسن ہے یا جمہوریت سے ہمارا انتقام۔ عقل اب بھی قریب نہیں پھٹکی شاید عقل و فہم فواد چودھری اور شیخ رشید جیسے مشیروں سے خوفزدہ ہے جنہوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد استعفوں کے جال میں پھنسا کر سیاسی میدان سے ہی آؤٹ کرنے کی سازش کی ہے۔ جلسوں میں تقریروں سے ملک بھر میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں، یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘‘ ہم نے قیام پاکستان سے اب تک گزشتہ 75 سال میں بڑی تباہی دیکھی ہے۔ ’’ہم نے دیکھے ہیں خون سے رنگے کارواں آپ کو کیا خبر آپ تھے ہی کہاں۔ آگ تھی اور دھواں مل رہی تھی سزا آپ کو کیا پتا آپ تھے ہی کہاں‘‘ سیاستدان ملک پر رحم کریں جلاؤ گھیراؤ کی نوبت آنے سے پہلے دانش مندی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں۔ لہجے تبدیل ہوں گے تو شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ اقتدار جانے کا غم نہیں اپنوں کے دھوکوں پر دکھی ہوں۔‘‘ دھوکہ دینے والے تو اب بھی دائرے کی شکل میں ارد گرد جمع ہیں۔ ان کے چنگل سے نکلے بغیر بات نہیں بنے گی۔