قوموں کے عروج و زوال کا عمل تہذیبوں کے عروج و زوال سے مختلف ہوتا ہے۔ قوموں کو بیرونی حملوں سے تباہ و برباد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تہذیبوں کو کوئی باہر سے نہیں مار سکتا، وہ صرف خود کشی کرتی ہیں۔ ہر قوم کا جوہر اس کے روحانی اصول ہیں۔ جب یہ اصول مر جاتے ہیں تو قومیں مردہ ہو جاتی ہیں۔ مسلم تہذیب میں ہمارے روحانی اصولوں کا ظہور ریاست مدینہ کی صورت میں ہوا۔ یہ اصول توحید، انصاف اور قانون کی حکمرانی ہیں، جس کا حاصل میرٹ کا اصول ہے۔ ریاست مدینہ مضبوط اخلاقی اساس پر کھڑی ہونے والی ریاست تھی جو آنے والے تمام انسانوں کے لیے رہنمائی کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ ایسی ریاست جس میں تمام انسانوں کی بلا رنگ مذہب ترقی و خوشحالی بنیادی مقصد قرار پائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ نام تو ریاست مدینہ کا لیا جائے اور کردار اس کے برعکس پیش کیا جائے۔ یوں تو ملک عزیز کے ہر دور حکومت میں چور بازار ی اور کرپشن کی داستانیں عام ہیں۔ لیکن ریاست مدینہ کے دعوے دار سابق وزیر اعظم عمران خان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی شخصیت کو ایمانداری کا دیوتا بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ انھیں باقاعدہ عدالت سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دلوایا گیا۔ اب اس ایمانداری کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ بطور وزیر اعظم پاکستان انھیں غیر ملکی تحائف ملے جنھیں قانون کے مطابق توشہ خان میں جمع کرانا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا تحفہ جو کہ وزیر اعظم، صدر یا وزراء میں سے کسی کو پسند آ جائے تو وہ قانون کے مطابق طے شدہ طریقہ کار کے تحت اس تحفے کو مارکیٹ ویلیو لگوا کر مقررہ رعایتی قیمت پر خرید سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو دورہ سعودی عرب کے دوران پرنس محمد بن سلمان کی جانب سے ایک گھڑی تحفے میں پیش کی گئی۔ پوری دنیا میں اس قسم کی صرف دو گھڑیاں بنائی گئیں۔ ایک گھڑی پرنس محمد سلمان کے پاس تھی جبکہ دوسری گھڑی سابق وزیر عظم عمران خان کو تحفے میں دی گئی۔ صرف گھڑی ہی نہیں بلکہ انتہائی قیمتی کف لنکس، پین سمیت دیگر تحائف پیش کیے گئے۔ جن کی کل مالیت لگ بھگ دس کروڑ سے زائد تھی۔ جو عمران خان صرف بیس فیصد ادا کر کے گھر لے گئے۔ معاملہ صرف اتنا سادہ نہیں۔ بات تب کھلی جب تھرڈ پارٹی کے ذریعے بیش قیمت گھڑی دبئی میں اس گھڑی ساز کو واپس فروخت کی گئی۔ کیونکہ اپنی طرز کی یہ
صرف دو ہی گھڑیاں تھیں۔ اس گھڑی ساز کو شک ہوا کہ کہیں یہ گھڑی چوری ہو کر تو نہیں آئی۔ لہٰذا پرنس محمد بن سلمان سے رابطہ کیا گیا اور انھیں صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ جس کے بعد اس گھڑی کو واپس خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس عمل سے پاکستان کے وقار میں کس قدر کمی آئی اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ 14 کروڑ سے زائد کے تحفے 4کروڑ میں خریدنا اور انھیں مبینہ طور پر زائد قیمت میں فروخت کر دینا کیا اخلاقی بد دیانتی کے زمرے میں نہیں آتا؟ سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے قبول کیا ہے کہ عمران خان نے تحفے میں ملنے والی گھڑی توشہ خانہ سے خریدی اور بعد میں بیچ دی تو کونسا جرم کیا ہے؟ جو اخلاقی معیار عمران خان نے زبانی جمع خرچ کے ذریعے نافذ کر رکھے تھے۔ کیا وہ ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ یہ معاملہ اخلاقی اور مالی کرپشن کی اعلیٰ مثال ہے۔ صادق اور امین قرار دیئے جانے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کے اصل کردار کو عیاں کرتا ہے۔ عوام میں یہ بات تواتر سے پھیلائی گئی کہ عمران خان کچھ بھی ہو سکتے ہیں کرپٹ نہیں ہو سکتے۔ اب یہ دعوے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ جلد ہی یہ تمام تفصیلات مع ثبوت عوام کے سامنے آ جائیں گی۔ اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو باضابطہ تحریری طور پر پوچھا کہ انھیں یہ معلومات فراہم کی جائیں کہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے کون کون سے تحفے کس قیمت پر خریدے ہیں۔ صادق اور امین سابق وزیر اعظم کی حکومت میں یہ تفصیلات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ معاملہ جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں گیا تو بجائے معلومات فراہم کرنے کے کابینہ ڈویژن نے اسے حساس معاملہ قرار دے کر چیلنج کر دیا۔ عمران خان نے اس کے علاوہ بھی بہت سے تحائف غیر قانونی طریقہ کار کے تحت بہت کم قیمت پر خریدے ہیں جو کہ ایک سنگین جرم ہے۔ قانون کے مطابق تحفہ مارکیٹ ویلیو کی قیمت کو مد نظر رکھ کر خریدنا ہوتا ہے۔ کوڑیوں کے بھاؤ خریدے گئے تحفوں کا معاملہ کب تک چھپایا جا سکتا تھا۔ جلد ہی عوام کے سامنے صادق اور امین عمران خان کے لالچ، ہوس اور غیر قانونی طریقوں سے مال بنانے کی داستانیں عام ہوں گی۔ ایک نہیں 7 گھڑیاں، ایک نہیں بہت سے ہار، ہیروں کی کئی بریسلٹ ایک لمبی فہرست ہے جو کہ ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہیں۔ توشہ خانہ سے لوٹ مار کی داستانیں بے نقاب ہونگی تو عمران خان عوام کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے مارکیٹ ریٹ سے ہٹ کر انتہائی کم قیمت پر حاصل کردہ 112 قیمتی ترین تحائف کی تفصیلات میڈیا تک پہنچ چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ گھڑی وغیرہ بیچنا اگر قانون کے مطابق تھا تو چھپاتے کیوں رہے؟ جب خبریں نکل آئی تھیں تو بتا دیتے کہ میں نے قانون کے مطابق گھڑی خریدی تھی۔ میری قسمت اچھی تھی آگے اچھے پیسوں میں بک گئی۔ اللہ نے مجھے اس سودے میں منافع دیا ہے۔ اس وقت سابق مشیر وزیر اعظم شہباز گل یہ کہتے رہے کہ عمران خان نے یہ تحفے توشہ خانہ میں جمع کرا دیئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سابق وزیر اعظم نے کوئی تحفہ توشہ خانہ میں چھوڑا ہی نہیں۔ کیا یہ ہے وہ امر بالمعروف جس کا عمران خان آج کل پر چار کر رہے ہیں؟ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ توشہ خانہ سے کئی تحفے غائب ہیں۔ گولڈ پلیٹد کلاشنکوف بھی گم ہے جسے مبینہ طور پر بیچ دیا گیا ہے۔ نئی حکومت اس معاملے کی تحقیقات میں نہایت سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کی کرپشن کو روکنے کیلئے شہباز شریف صاحب کو توشہ خانہ کے قواعد میں تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ کوئی بھی تحفہ کسی بھی سربراہ کو مفت یا رعایتی قیمت پر نہ دیا جائے۔ سر براہان اور وزراء کو ملنے والے تحفے ریاست کی امانت ہیں ان کی ہر دو سال بعد نیلامی ہونی چاہئے۔ خریداری کی اجازت سرکاری اور فوجی افسران تک محدود رکھنے کے بجائے کھلے عام بولی ہونی چاہئے۔ جس طرح بڑے شہروں دوبئی، نیویارک، لندن وغیرہ میں گاڑیوں کے سنگل اور ڈبل نمبروں کی بولی لگا کر 500 ڈالر کی نمبر پلیٹ ایک ملین ڈالر تک میں بیچ دی جاتی ہے۔ اسی طرح سربراہان کے دیئے گئے تحائف عام نہیں ہوتے۔ اگر ان کی اوپن آکشن کی جائے تو نادر اشیا جمع کرنے والے افراد اصل قیمت سے کئی گنا زائد بولی دے کر یہ تحائف خریدیں گے۔ جس سے قومی خزانے کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ سابقہ حکومت کی کارکردگی صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہی ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ شہباز حکومت کو نہ صرف عمران خان کی کارکردگی بلکہ کرپشن کو بھی سامنے لانا ہو گا۔