پی ٹی آئی کی حکومت دوسرے ممالک کے ساتھ اپنا موازنہ کرتی رہی تھی اور پاکستان کو دوسرے ممالک کی طرح طاقتور اور با عزت بنانے کی کوشش کرتی رہی مگر محض یہ کوشش ہی رہی پنجاب اسمبلی میں ہونے والا تماشا ڈپٹی سپیکر دوست مزاری جب عدالتی احکامات کی پاسداری کر رہے تھے تو پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے ان کے ڈیسک کا گھیراؤ کر کے ان پر تھپڑوں کی بارش کی گئی۔ آپس میں گتھم گھتا ہوئے لوٹے برسائے گئے۔ یہ سب حالات دیکھ کر دنیا میں پاکستان کا کتنا تماشا بنا کبھی میرے ملک کے سیاستدانوں نے سوچا ہے۔ کسی کو شرم تک نہیں آئی، بڑا افسوس ہوتا ہے اپنے ملک کے سیاست دانوں کا یہ حال دیکھ کر اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے یہ کہنے میں کہ آپ ایک عوامی نمائندے ہیں۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کو ٹھیک کرنے کی جنگ نہیں بلکہ اپنی انا اور ضد کی جنگ ہے بس پی ٹی آئی کے اراکین کو اب یہ گالم گلوچ اور ناکامی کو آرام سے تسلیم کر کے آپس میں بیٹھنا چاہیے نہ کہ میرے ملک کے ایوانوں میں جا کر اپنا آپ واضح کریں اور پاکستان کی جگ ہنسائی کرائیں۔ خدارا بس کریں ہم تنگ آ گئے ہیں دوسرے ممالک کو تماشوں کا جواب دے دے کر جب ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے ایوان میں ہوا کیا تھا جو عوامی نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ اب وقت ہے جینے دو کام کرو اور کام کرنے دو پاکستان کے سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے لڑنا ہے نا تو اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی سسٹم ٹھیک ہو سکتے ہیں، وہاں اپوزیشن بھی کوئی کم نہیں دکھائی دی، پرویز الٰہی جب لوٹے برساتے اپنی پارٹی کے اراکین کو دیکھ رہے تھے انگوٹھا اٹھا کر شاباش دیتے رہے اس کے بعد جب ان پر بھی حملہ ہوا، اس نتیجے میں ان کا بازو ٹوٹ گیا اور ہاتھ اٹھا کر بعد میں حمزہ شہباز، شہباز شریف، نواز شریف کو یہ کہتے رہے کہ خدا ان سے بدلہ لے گا اور کہا کہ میں ان کو کبھی معاف نہیں کروں گا جبکہ باقی سب لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی نے خود کہا تھا کہ اسمبلی کے اندر دو بندے اگر قتل بھی ہو جائیں تو کوئی بات نہیں مگر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک شرم کا المیہ تھا جو ہم نے اپنے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں دیکھا۔ خواتین ایم پی اے بھی کوئی کم نہ دکھائی دیں سب بھول گئی تھی کہ شاید ہمارا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ میرے ملک کے ایوانوں کا کیا حال ہوا
یہ تو ہمیشہ سے ہی وتیرہ رہا ہے موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کا کہ جب بھی کوئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو ماضی کی حکومت پر الزام ہی لگاتی ہے اور اپنے پارسا
ہونے کا راگ الاپتی ہے۔ مگر اس حکومت کے حقائق اس وقت پتا چلتے ہیں جب اس حکومت کے ساتھ سابقہ کا لفظ استعمال ہونے لگ جاتا ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے ہمیشہ سے یہی حال دیکھا ہے۔ سیاسی پارٹیاں جب بھی اقتدار سنبھالتی ہیں یہی کہتی ہیں کہ ماضی کی حکومتیں چور ہے اور خزانہ لوٹ کر گئی ہیں اور ملکی معیشت کے حالات بہت بُرے ہیں۔ میں نے جب ماضی کی حکومت دیکھی پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھی تو عمران خان صاحب کہتے تھے کہ ماضی کی حکومت نے ملک کے خزانے کو ایسا لوٹا ہے کہ ملک چلانا بہت ہی مشکل ہے۔ پھر عمران خان صاحب ایک بات اور کرتے تھے کہتے تھے کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی چوروں اور ڈاکوؤں کا گٹھ جوڑ ہے، انہوں نے خزانے سے سب کچھ لوٹ لیا ہے انھوں نے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور پی ٹی آئی کے کہتی تھی کہ ہم لوگ تو ایسے ہی ہم سب کھاتے پیتے ہیں نہ ہمارے بزنس باہر کے ممالک ہیں ہمارا جو کچھ ہے وہ پاکستان میں ہی ہے۔
مگر اب کیا ہوا جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کو گرا دیا وزیراعظم شہباز شریف کو بنا دیا اب جب ایک کہانی دوبارہ دہرائی گئی تو معلوم ہوا کہ توشہ خانہ سے کیا کیا غائب ہوا ایک ہار اور گھڑی اور گولڈ پلیٹڈ بندوق جس کا ابھی تک معلوم ہی نہیں کہ کدھر ہے مگر حکومتی اراکین کے بقول یہ بندوق بنی گالہ سے ملے گی۔ ہار اور گھڑی دبئی میں عمران خان صاحب نے حکومت سے کوڑیوں کے مول خرید کر مہنگے داموں بیچ دی ہوئی ہے۔ عمران خان پہلے ماضی کی حکومتوں سے سوال کرتے تھے کہ آپ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا جو آپ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں تو اب موجودہ حکومت اور اپوزیشن کا گٹھ جوڑ ہی عمران خان سے سوال کر رہا ہے کہ جناب آپ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، وزیراعظم کی تنخواہ کے علاوہ تو آپ کا کوئی ذریعہ آمدن ہی نہیں تھا تو آپ نے یہ تحائف سستے داموں بھی حکومت سے کیسے خرید لیے جب کہ آپ نے ان کو کروڑوں کے داموں بیچا ہے۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان کو توشہ خانے سے چوری کی ضرورت نہیں مگر جیسا کہ میں پہلے ہی اپنے کالم میں یہ بات واضح کر چکی ہوں کہ عمران خان کو آج حکومت سے فارغ کرانے والے بھی ان کے اپنے ہی وزیر ہیں جو فضول اور بے معنی بیانات دیتے رہتے ہیں، اس بار بھی یہی کہانی دوہرائی جائے گی۔ ادھر پی ٹی آئی ورکرز کہہ رہے ہیں کہ ہمارے خان کے پاس خدا کا دیا سب ہے اسے کیا ضرورت توشہ خانہ سے چیزیں سستے داموں لے کر مہنگے داموں فروخت کرنے کی تو ہی پی ٹی آئی کے وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ عمران خان اگر توشہ خانہ سے کوئی تحفہ فروخت بھی کر دیا تو اس میں کیا غلط ہے وہ عمران خان صاحب کو تحفے کے طور پر ملی تھی تو انہوں نے بیچ دی اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ منتخب وزیر اعظم کو جو بھی تحفہ ملتا ہے، جاتے وقت وزیراعظم ہاؤس کے حوالے کر کے جاتا ہے مگر جب بھی کوئی حکومت گئی توشہ خانہ کے متعلق ایسی ہی اطلاعات سامنے آئیں۔
عمران خان اب بھی اپنی شکست تسلیم نہیں کر رہے جو آج تک نواز شریف کہتے رہے مجھے کیوں نکالا؟ عمران خان بھی اپنے جلسے جلوس احتجاج میں جب خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا ضرورت پڑ گئی تھی آدھی رات کو عدالت لگانے کی، میں نے ایسا کون سا جرم کر دیا تھا؟ کہتے ہیں نہ خان صاحب کہ وقت بہت بڑا ظالم ہے۔
کہتے ہیں چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں تو یہ دور اقتدار بھی ایسا ہی ہے۔ آپ نے مہنگائی بہت عروج پر کر دی تھی باقی تو شاید آپ کے بس کی بات ہی نہیں تھی مگر آپ جب آئین کو ہوا میں اڑا رہے تھے تو ایک چیز واضح ہو گئی کہ آپ جیسے اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے تھے کہ ایک پاکستان کی عدالتوں کو ٹھیک کرنے کی بہت ضرورت ہے دور اقتدار سنبھالتے ہی ملک کے عدالتوں کا نظام ٹھیک کروں گا تو مجھے لگتا ہے عدالتوں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ عمران خان صاحب کامیاب ہو چکے ہیں، کچھ ٹھیک کر سکے ہوں یا نہ کر سکے ہوں مگر عدالتی نظام ٹھیک کر ہی گئے ہیں بہت شکریہ آپ کا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے رات بارہ بجے سپریم کورٹ کھولنے کے احکامات جاری کر کے یہ بات صاف صاف واضح کر دی تھی کہ میں اپنے ملک کے وزیراعظم سے ہی شروع کرتا ہوں عوام کو بتانے کے لیے کہ پاکستان کا عدالتی سسٹم کتنا مضبوط اور طاقتور ہے کہ اگر ایک ملک کا وزیراعظم بھی اس کے احکامات کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرے گا تو صبح ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ رات 12 بج کر ایک منٹ پر ہی اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا جائے گا۔ عمران خان صاحب آپ جو ماضی کی حکومتوں کو چور کہتے رہے تو اب توشہ خانہ سے چیزیں غائب ہوئی آپ کے وزیر نے بھی تصدیق کر دی تو اب عوام کیا سمجھے، کیا آپ بھی۔۔۔؟