لاہور: مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پارٹی صدر شہباز شریف کی ضمانت کے اعلان کے چار دن گزرنے کے بعد اختلافی نوٹ پر تشویش ہے. ضمانت منظور ہونے ، باضابطہ اعلان اور ٹی وی پر چل جانے کے بعد اختلافی نوٹ حیران کن ہے۔
اپنے ٹویٹ میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ضمانت منظور ہونے کا اعلان ہوا ہو لیکن تحریری حکمنامے پر دستخط نہیں ہوئے۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ ہے چار دن سے حکم لینے جارہے تھے ہر مرتبہ جواب دیا گیا کہ ابھی تحریری حکم لکھا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضمانت کا اعلان ہوا اور دو تین دن میڈیا میں چلتا رہا۔ ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر چلتا رہا یہ بات ذہن قبول نہیں کر رہا کہ پوری قوم ٹی وی پر ضمانت کا اعلان سنے ۔ کھلی عدالت میں اعلان ہوا لیکن تحریری حکم تین دن گزرنے کے باوجود سامنے نہ آئے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو فیصلے سے فوری آگاہ کرنے کے باوجود ہائی کورٹ کی جانب سے چار دن کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ عدالت کی عزت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے یہ ہر شہری کا فرض ہے لیکن اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونے کا دکھ ضرور ہے۔
انہوں نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ ہمیں مکمل انصاف ملے گا ۔ہمارا ایمان ہے کہ عوام کی خدمت کرنے والے کو انصاف ملے کا اور شہباز شریف صاحب ہمیشہ کی طرح سُرخرو ہونگے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز منی لانڈرنگ کیس میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال کا اختلافی نوٹ سامنے آیا تھا۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران فریقین کا موقف سننے کے بعد انھوں نے عدالت میں ضمانت مستردکرنے کاکہا، بعدازاں چیمبر میں بھی میں نے ضمانت منظور کرنے سے انکارکر دیا تاہم انکے ساتھی جج نے اپنے طور پر نائب قاصدکے ذریعے ضمانت منظورکرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
اگلے چند منٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر نے شارٹ آرڈر لکھ کر انھیں سائن کے لیے بھجوا دیا حالانکہ اس موقع پر شارٹ آرڈر نہیں بنتا تھا، ان کے ضمانت دینے کے صاف انکار کے باوجود فیصلہ سنا دیاگیا جس پر وہ اگلے چند منٹ میں معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے علم میں لائے۔ درخواست ضمانت متفقہ طور پر منظور کرنے کی بات زمینی حقائق کے خلاف ہے۔
دوسری جانب جسٹس سرفراز ڈوگر نے بھی تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ انھوں نے قرار دیا کہ دو رکنی بینچ نے متفقہ طور پر ضمانت منظور کی تاہم جب شارٹ آرڈر دستخط کیلئے جسٹس اسجد جاویدگھرال کو بھیجا تو فاضل جج صاحب نے کہا کہ وہ اختلافی نوٹ لکھیں گے۔