مشال خان کیس سمجھنے سے پہلے سچا واقعہ پڑھ لیں!

مشال خان کیس سمجھنے سے پہلے سچا واقعہ پڑھ لیں!

مشال خان کیس کی کڑیاں انتظامیہ کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ دے رہی ہیں، انتظامیہ جو یونیورسٹی جیسی ریاست میں بادشاہت کی سی ہوا کرتی ہے، جس کے عمل دخل کے بغیر یونیورسٹی میں ایک پتہ بھی نہیں ہلا کرتا، ہم نے خود اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت سے اساتذہ کو طالب علموں کے آپسی جھگڑوں سے اپنے کیرئیر کے لئے مائیلج لیتے ہوئے پایا ہے، اور کمزور طلبہ شطرنج کے پیادوں کی طرح پٹتے چلے آئے ہیں اور ایسا کم ہی ہوتا کہ کوئی پیادہ شاہ کے مقام تک جا پہنچے۔
کوئی زمانہ ہوتا تھا کہ طلبہ تنظیموں کا زور ہوا کرتا تھا، انتظامیہ اپنی من مانی کرنے سے پہلے، فیسیں بڑھانے سے پہلے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا کرتی تھی

لیکن گذشتہ دو عشروں سے سے طلبہ تنظیموں کی بجائے انتظامیہ کی من مانی چلتی ہے، پروٹوکول کے نام پر تعلیمی اداروں کے ہاسٹل خالی کروا لینا، سمر سمیسٹر کی ہاسٹل کی الگ سے فیس لینا، ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو ٹھونسنا، اپنی مرضی اور سہولت کے قوانین بنانا، طلبہ میں تفریق پیدا کرنا، خود سے نا متفق طلبہ کو کم نمبر دینا، حتیٰ کہ کلاس میں زیادہ سوال پوچھنے پر طالب علم کے گریڈ خراب کردینا جیسے معاملات دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔
انتظامیہ طلبہ کو اپنے معاملات میں پیادوں کی طرح کسیے استعمال کرتی ہے اس کی مثال اپنی ایک آب بیتی سے دینا چاہوں گا،

اس کہانی کے سبھی کردار ابھی تک زندہ ہیں، ہم ایم ایس سی کے طالب علم تھے، اپنی ایک کلاس میں موجود تھے کہ ایک سرکاری ملازم آیا اس نے پروفیسر صاحب سے کہا کہ رمضان رفیق کو فلاں پروفیسر نے بلایا ہے، دوران کلاس انتظامیہ سے متعلق ایک بڑے عہدیدار کا مجھے بلانا مجھے کسی آنکھ نہ بھا رہا تھا، ان کے روبرو حاظر ہوا،جاتے ہی انہوں نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا، یہ کیا اودھم مچا رکھا ہے تم لوگوں نے؟  میں ابھی معاملہ سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ ہوا کیا ہے، ایک اشتہار سا میرے سامنے رکھا، جس پر تلاش گمشدہ کا ایک اشتہار بنا ہوا تھا،

میری تصویر کے ساتھ چند مزاحیے فقرے لکھے ہوئے جیسےکہا گیا تھا کہ ایک شخص، منہ لسی سے دھلا ہوا، مونچھیں براڈ کاسٹ میتھڈ سے اگی ہوئیں، یہ شخص لڑکیوں کے ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے غائب ہوا ہے۔ جس کو پتہ ہو فوراً اطلاع کرے وغیرہ ۔

کہنے لگے یہ بہت سنگیں معاملہ ہے مجھے بتاو کہ ایسا کس نے کیا ہے، یہ اشتہار جس کاغذ پر چھپا ہوا تھا کہ ہماری یونیورسٹی کی ایک ابھرتی ہوئی سوسائٹی کا مونو گرام لئے ہوئے تھا، لامحالا میرا ذہن اسی سوسائٹی کی طرف گیا، اس کے چند افراد سے میر ی کچھ بنتی بھی نہ تھی، تو میں نے شک ظاہر کیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، استاد محترم نے مجھے بڑی خوبصورتی سے قائل کر لیا کہ میں چند لوگوں کے نام انہیں لکھوا دوں اور میں نے اس سوسائٹی کے چند کرتا دھرتا لوگوں کے نام بھی لکھوا دئیے۔

مزید برآں اس بات پر بھی قائل ہو گیا کہ اس سوسائٹی کے بارے میں وائس چانسلر صاحب کو بھی شکایت لگائی جائے، اب اس بات کی وضاحت ضروروی ہے کہ میں خود بہت سی ادبی سوسائٹیز میں ایکٹو تھا، اور نئی سوسائٹی کا پرانی سوسائٹیوں سے ایک اختلاف کا سا معاملہ چل رہا تھا، اس نئی سوسائٹی کو ہماری فیکلٹی کے ڈین صاحب کی آشیر باد حاصل تھی، جبکہ ہم جن سوسائٹیز میں تھے وہ سنئیر ٹیوٹر آفس کے ماتحت کام کرتیں تھیں۔
خیر میں نے ایک درخواست سی ترتیب دی اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کی طرف چل پڑا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس معاملہ کی انکوائری ایگری انجنئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کو بھیج دی گئی ہے اور میں ان سے رابطہ کروں، اب میں اندر ہی اندر پیچ و تاپ کھانے لگا کہ کسی نے بدنام بھی مجھے کیا، انکوائری بھی میری ہی لگا دی گئی، میرا غصہ بڑھنے لگا، متعلقہ سٹوڈنٹس مجھے سٹوڈنٹس افیئر کے دفتر باہر مل گئے ۔

ان سے تو تو میں میں بھی ہو گئی، جیسے جذباتی نوجوان ہوا کرتے ہیں ویسے ہی انہوں نے میرے الزام پر رد عمل دیا کہ تم سے جو ہوتا ہے کر لو ہم نے نہیں کیا، اب میرا غصہ کچھ اور بڑھ گیا۔

وہاں سے میں ٹیوٹر آفس گیا، تاکہ کچھ اخلاقی مدد حاصل کر سکوں تو جن لڑکوں کو الزام دے رہا تھا وہ وہاں سے نکل رہے تھے اور ٹیوٹر صاحب کو کہہ آئے تھے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، میرے غصے میں ایک درجہ اور اضافہ ہوا کہ اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو دفتر دفتر یہ اپنی صفائیاں کیوں دیتے پھر رہے ہیں، اسی جھنجلاہٹ میں تھا کہ اسی سوسائٹی کے صدر صاحب مجھے ڈھونڈتے ہوئے آ پہنچے انہوں نے کہا آپ ایک دفعہ میرا موقف سن لیں بعد میں جو آپ کا دل ہو گا کیجئے گا، میرے دل میں ان کا بے حد احترام تھا اور آج بھی ہے، میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے کیمپس ٹائم ختم ہونے کے بعد سرسید ہال جو میرا ہاسٹل تھا اس کے باہر ملتے ہیں۔ وہاں سے میں انکوائری کمیٹی کے ہیڈ کے دفتر گیا ، ان سے ملا تو مجھے حالات بہت نارمل لگے، انہوں نے کہا کہ کسی نے تمہارے خلاف اشتہار لگایا ہے تمہیں کسی پر شک ہے تو بتاو، میں نے ان سے کہا مجھے ابھی کچھ کنفرم نہیں کل تک ادھر ادھر سے معلومات لیکر آپ کو بتاتا ہوں۔

خیر کیمپیس ٹائم کے ختم ہوتے ہی متلعقہ سوسائٹی کے لوگ اور کچھ میرے دوست میرے ہاسٹل کے سامنے اکٹھے ہو گئے، ہم ایک دائرے کی صورت بیٹھے ہوئے تھے تو دور سے انتظامیہ کے وہ بڑے آفیسر بھی ہمیں دیکھتے ہوئے گذر رہے تھے جن نے مجھے قائل کیا تھا کہ مجھے ایسی بدمعاشی کے خلاف درخواست ضرور دینی چاہیے۔ سوسائٹی کے صدر صاحب نے کہا رمضان بھائی ہماری سوسائٹی کا ایک ایک فرد قرآن پر حلف دینے کو تیار ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ایسی شرارت نہیں کی، میں نے ان کی بات پر اعتبار کر لیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

اس واقعہ کے ایک سال بعد ہم کلاس ٹور کے ساتھ مری گئے ہوئے تھے اور انتظامیہ کے وہی بڑے آفیسر ہمارے ساتھ ٹور پر تھے، ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر ہلکے پھلکے انداز میں گپ شپ چل رہی تھی، کہنے لگے ، چنگا کیتا تسی صلح کر لئی سی ورنہ معاملہ انتظامیہ دے کول آ جاندا تے کچھ نہ کچھ تے نکلنا ای سی۔۔۔

یعنی اچھا ہو اکہ تم نے معاملہ خود ہی حل کر لیا، ورنہ انتظامیہ نے تو کچھ نہ کچھ نکال ہی لینا تھا، اس فقرے نے اس کہانی کو مکمل کردیا جو ایک سال تک میرے ذہن میں گھومتی رہی تھی کہ مجھے کیونکر ایک عام سی بات پر کلاس سے بلا کر درخواست لکھنے کی تحریک دی گئی۔ کیونکہ  اس سوسائٹی کا ایک بڑا پروگرام ہواتھا، جس میں فیکلٹی ڈین اور اساتذہ تو موجود تھے لیکن روایتی انتظامیہ کو اتنا پروٹوکول نہیں ملا تھا، جس کا اظہار برملا کیا جا رہا تھا، اور انتظامیہ یہ چاہتی تھی کہ کوئی شخص اس سوسائٹی کے خلاف درخواست دے، اور درخواست بھی وائس چانسلر تک لگائی جائے، اور کسی نہ کسی انداز میں مجھے اس کے لئے ٹریپ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
یہ ایک مثال ہے اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود میں جن میں طلبہ کے کندھوں پر رکھ کر بندوقیں چلائی جاتی رہی ہیں، موجود وائس چانسلر کو اتروانے کے لئے لیکچر شارٹیج کے نام پر سٹوڈنٹس کو احتجاج پر مجبور کرنا اور اس احتجاج میں انتظامیہ کی طرف سے بلوائی گئی کسی فورس سے گولی چل جانا، طلبہ کا زخمی ہونا ، طلبہ سے کسی انتظامی سربراہ کے دروازے پر فائرنگ کروانا، یا اس کے خلاف نعرہ بازی کروانا، اس طرح کے حربے جامعات میں کسی نہ کسی انداز میں ہوتے آئے ہیں۔


اب جب مشال خان کیس میں ایک ملزم نے یہ بات کہی ہے کہ مجھے انتظامیہ کی طرف سے توہین مذہب کا الزام لگانے کا کہا گیا تھا تو میرے نزدیک ایسا ہونا قرین قیاس لگتا ہے۔ ہمارے کلچر میں خود پر اٹھنے والی ہر انگلی کاٹ دینے کی روش پرورش پائی جاتی ہے، اور ایک نمانے طالب علم کی کیا مجال جو انتظامیہ کی کوتاہیوں پر کچھ بات بھی کر سکے، اور ویسے بھی بعض لوگوں میں ڈگری کر لینے سے ان کے علم میں نہیں بلکہ ان کے زہر میں اضافہ ہوتا ہے۔ مجھے یونیورسٹی انتظامیہ سے کوئی حسن ظن نہیں میرے خیال میں تو سب سے پہلے ایسی انتظامیہ کو ہی کٹہرے میں کھڑے ہونا چاہیے کہ جس کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ اور اے کاش اس کیس کا فیصلہ کئی لوگوں کےکیلئے مثال عبرت بنے تو مجھے یقین ہے کہ انتظامی جادوگروں کو بھی یقین آئے کہ جس آگ سے وہ کھیلتے آئے ہیں کبھی ان کے دامن تک بھی آ سکتی ہے۔

جوانی اور جذبات میں دوست نہیں سمجھتے کہ ہمارے معاشرے میں سچ کسی سے برداشت نہیں ہوتا، یونیورسٹی ایک چھوٹی سی ریاست کی طرح ہوتی ہے جہاں یونیورسٹی کے خلاف بات کرنا دریا میں مگرمچھ سے بیر کے مترادف ہوا کرتا ہے، بڑے بڑے سورما ان نمک کی کانوں میں جا کر جی حضورئیے ہوتے ہوئے دیکھے اور بہت سے خوش خلق لوگوں کو استاد بن کر بد تمیز اور بے لحاظ ہوتے دیکھا کیونکہ یہاں گریڈ بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں جس نے تعلیم دی تھی، اس کا فیصلہ حرف آخر ہے، وہ چاہے تو بنا امتحان لئے سب کو اے گریڈ دے دے اور ضد پر اتر آئے تو لوگوں کے سینوں سے گولڈ میڈل چھین لے۔ اسی طاقت کے غرور میں استاد اپنے مقام سے گرتے ہیں اور طالب علموں کے سینے پر پاوں رکھ کر پکارتے ہیں ۔۔۔تو کر کے دکھا مجھے ڈگری۔ ایسے ماحول میں مشال خان فیل ہوتے رہتے ہیں اور اگر ان کو فیل کرنا ممکن نہ تو ان کو مارنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔

خداوند یہ گلہ ہے خداوندان مکتب سے مجھے سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

مصنف کے بارے میں

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں اور اردو بلاگر ہیں