2018ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں جب انرجی اینڈ فوڈ کی قیمتوں میں اضا فے کا سلسلہ شروع ہوا اور آئی ایم ایف کے کہنے پر سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو ڈیمانڈسپلائی سے منسلک کیا گیا تو اس وقت معاشی ماہرین نے کہا کہ اس طرح تو 2023ء تک ڈالر 200 روپے کا ہو جائے گا اس وقت کیا پتہ تھا کہ 2023ء توبہت دور ہے ڈالر نے ایک سال پہلے ہی وہ ہدف پورا کر دیا۔ جب شہباز شریف حکومت بقول وزیر اعظم آئی ایم ایف سے امداد کے لیے ناک سے لکیریں کھینچ رہی تھی تو ایک دفعہ پھر وہی ماہرین کہہ رہے تھے کہ جیسے ہی امداد ملے گی ڈالر جو کہ 248 پر پہنچ چکا تھا واپس آجائے گا بلکہ جولائی میں کچھ دن کیلئے یہ ہوا بھی کہ ڈالر 214 تک واپس آ گیا تو حکومتی ارکان نے کہا کہ اس کو 180 پر لائیں گے 180 کا بنچ مارک تحریک انصاف چھوڑ کر گئی تھی مگر پھر جلد ہی آئی ایم ایف کی امداد ملنے کے باوجود ڈالر مہنگا ہونا شروع ہوا اور اس وقت یہ ایک دفعہ پھر 240 روپے سے اوپر جاچکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ، ڈالر کی سمگلنگ ڈیمانڈو سپلائی فیکٹر، دوست ممالک سے امداد کے وعدے کے بعد رقم نہ ملنا اس کی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
اس نازک معاشی صورتحال میں سیلاب نے مزید اضافہ کیا جس سے ملک کو 35ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جبکہ لائیو سٹاک اور فصلیں تباہ ہوئی میں اور گندم کی بوائی نہ ہونے سے خطرہ ہے کہ اگلے سال ملک میں آٹے کی شدید قلت ہو گی اور ابھی سے روس سے گندم کی درآمد کا عمل شروع کر دیا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف نے مسلسل متواتر لگا تار اور پے در پے تابڑ توڑ جلسے جاری رکھے گویا ایمر جنسی حالات میں بھی سیاست کرنا نہیں بھولے اسی اثنا میں انہی مقاصد کے تحت مریم نواز نے بھی جلسہ کیا کیونکہ سب کو ضمنی انتخاب کی فکر لاحق ہے۔ پنجاب حکومت میں پرویز الٰہی صاحب خاموشی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں نے گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع میں 10 ارب سے زیادہ کے ترقیاتی فنڈز کی منظوری دی ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں سے ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے چوہدری پرویز الٰہی کا سارا ووٹ بنک ان دو اضلاع میں ہے لہٰذا اپنی ساری توجہ اور سارا خزانہ اس پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی توہین عدالت کیس میں پیشیاں بتاتی تھیں کہ شاید انہیں اس کیس
میں نا اہلی کی سزا ہو جائے گی۔ لیکن اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال اعتدال پر آنے لگی۔ ان واقعات کو آپس میں مربوط کرنے کے لیے کوئی بہت زیادہ سیاسی بصیرت کی ضرورت نہیں۔ امریکی سابق نائب وزیر خارجہ برائے ساؤتھ ایشیا امور رابن رافیل نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی جیسے خفیہ رکھا گیا مگر کسی طرح میڈیا کو اندر ہی اندر سے ملاقات کی خبر لیک کرا دی گئی تو شور مچ گیا فواد چوہدری نے کہا کہ یہ تین سال پہلے کی ملاقات تھی مگر عمران خان کے اگلے دن ٹی وی انٹرویو میں اس ملاقات کی تصدیق کردی اس سے اگلے دن ان کی آرمی چیف سے ایوان صدر میں ملاقات کی بھی خبر آگئی جو میڈیا سے اوجھل تھی۔ ان دو ملاقاتوں کے درمیان سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کو توسیع کا لفظ بولے بغیر نومبر سے 6 ماہ آگے بڑھانے کی بات کی جو کہ سیاسی حلقوں کیلئے ایک بہت بڑا سرپرائز تھا مگر وہ اس پر قائم ہیں البتہ اس کو Extention کہنے سے اجتناب کر تے ہیں۔ دہ چا ہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کا فیصلہ نیا وزیراعظم کرے۔ حالانکہ عمران خان چیف کو توسیع دینے کے خلاف ہیں اور برملا کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ کو 2019ء میں ایکسٹینشن دینا ان کی غلطی تھی۔
اب وہ امریکی خط کا اور سازش کا ذکر کئے بغیر کہتے ہیں کہ امریکہ کے سمیت سب سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے آخری وقت پر انہیں نا اہلی سے بچا لیا ہے اب پاکستان کی اعلیٰ عدالت رعایت اور رحمدلی سے فیصلہ دے گی۔
اسی اثنا میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی جو بنیادی وجہ تھی شہباز گل کی سنگین غداری کیس میں ضمانت منظور ہوگئی ہے اور عدالت نے پولیس الزامات کی دھجیاں اڑا دی ہیں البتہ شہبار گل کے اس متنازع بیان کو Hate Speech تسلیم کیا مگر ساتھ سنگین غداری پر سوال اٹھاتے ہوئے ضمانت لے لی ہے جس سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کو Dispose off کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔
صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب نے بھی اپنے انٹرویو میں عندیہ دیا ہے کہ مفاہمت اور ڈائیلاگ ناگزیر ہیں اور جلد ہی اس پر مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے جب صدر پاکستان نے یہ بات کی تھی تو عمران خان اور اس ان کی اپنی پارٹی کی اس تجویز پر تحفظات تھے۔ اب عمران خان کے بیانات اور تقریروں میں نیوٹرلز کے بارے میں سیز فائر کی کیفیت ہے اور ان کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اب وہ عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت نہیں دیں گے اور لگتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کے بارے میں بھی اتفاق رائے ہو چکا ہے کہ یہ 2013ء میں ہی ہوں گے۔
اس کے ساتھ ہی امریکہ کی طرف سے پاکستان کے 16-F طیاروں کے فلیٹ کیلئے سپیئر پارٹس اور maintenance کا معاہدہ بھی ہو گیاہے جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کلیدی کردار ہے اس سلسلے میں انڈیا کا پریشر تھا کہ یہ معاہدہ نہیں ہونا چاہئے مگر پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ ان کا مقصد اس صلاحیت کو دہشت گردی کے سدباب کے استعمال کرتا ہے۔
اب اگر پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کی طرف سے امریکی سازش کے ذریعے ان کی حکومت کے خاتمے اور regime change کا الزام نہ دہرایا گیا تو سمجھ لیں کہ ڈیل ہوگئی ہے۔ اسی طرح آنے والے دنوں میں اگر عمران خان فوج دفاعی اداروں کیلئے نیوٹرلز کا لفظ استعمال کرنے سے اجتناب کریں تو بھی سمجھ جائیں کہ یہ تبدیلی اینویں نہیں آئی ان دونوں کے پیچھے باقاعدہ ہوم ورک ہوا ہے۔
پاکستان کا دورہ کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ ہفتے پاکستان کو پیغام دیا تھا کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں انسانی حقوق اور Freedom of speech کے حق کا خیال رکھا جانا چاہیے یہ ایک بہت اہم بیان تھامگر ہمارے قومی میڈیا میں اس دوران بیک چینل ڈپلومیسی اپنے انداز میں حرکت میں آچکی تھی اور اسی دوران معاملات عروج پر تھے۔
یہ ساری stage setting ایک ایسے وقت ہوئی جب ازبکستان میں شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن SCO کے اجلاس میں روس اور چین اس اہم ایجنڈے کو آگے بڑھانے جارہے تھے کہ علاقائی ممالک کا ایک حصول ایسا جغرافیائی بلاک قائم کیا جائے جس میں امریکی اثرو رسوخ کو علاقے سے بے دخل کیا جاسکے۔ اس اجلاس میں وزیرا عظم شہباز شریف بھی تشریف لے گئے ہیں لیکن ان کی شرکت وہاں ممبر کے طور پر نہیں بلکہ مہمان کے طور پر تھی اس موقع پر امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان سے اپنی قربتیں بڑھا لی ہیں۔ سیلاب کے موقع پر سب سے زیادہ امداد امریکہ کی طرف سے دی گئی ہے لہٰذا اب تھینک یو امریکہ کہنا تو بنتا ہے۔