جی ہمیں پتا ہے کہ ملک میں سیاسی گرما گرمی ہے اور پنجاب کے حوالے سے خبریں زیادہ گرم ہے اور انتہائی تگڑا سوشل میڈیا ہونے کے باوجود بھی اگر خان صاحب کو فرمائشی انٹر ویو دینے کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ جس میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے متعلق مکتبہ عمرانیہ کی جانب سے ایک نادر تجویز آئی ہے اور بعد میں اسی تسلسل میں صدر مملکت کا انٹر ویو بھی کیا گیا تو اس سے بالکل اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب اور تحریک انصاف کو پتا چل چکا ہے کہ الیکشن ان کے مطالبہ پر نہیں بلکہ حکومتی اتحاد کی مرضی کے مطابق اگلے سال ہی ہوں گے یہ سب باتیں یقینا ہمارے علم میں ہیں اور ان پرکئی کالم بنتے ہیں لیکن کیا کریں کہ گرمیوں کا دی اینڈ ہونے جا رہا ہے اور جس طرح عمران خان کی حکومت کی وجہ سے کئی سال کے بعد لوڈ شیڈنگ نے اپنے جلوے دکھائے ہیں تو پورے سیزن میں اس پر کم از کم ایک کالم لکھنا تو بنتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب ہم بقلم خود اس کے نشانہ پر ہیں اور کئی راتیں میڈم کا یہ گیت گا کر گذاری ہیں
ستارو تم تو سو جائو
پریشاں رات ساری ہے
گنگناتے ہوئے بے دھیانی میں ہماری نگاہ آسمان پر پڑی تو ہمیں لگا کہ کئی ستارے ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہیں لیکن جب غور کیا تو پتا چلا کہ کم بخت مسکرا نہیں رہے بلکہ ہمارا منہ چڑا رہے ہیں ہمیں بڑا غصہ آیا ایک تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ٹھنڈے ٹھار ایئر کنڈیشنر کمرے سے حبس زدہ موسم میں مچھروں کے بیچ میں چھت پر آئے ہیں اور اوپر سے یہ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں آخر ہم سے رہا نہیں گیا اور ہم نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی میاں ہمارا گرمی سے برا حال ہے اور تمہاری کون سی لاٹری لگ گئی ہے کہ جناب کو اٹھکیلیاں سوجھ رہی ہیں ۔کہنے لگے کہ تم انسان بڑے ہی خود غرض اور بے وفا ہو ۔ ہمارا تمہارا ہزاروں سال کا ساتھ تھا یاد ہے تم بھی بچپن میں چھت پر سوتے تھے بلکہ اکثر شام کا کھانا بھی گرمیوں میں چھت پر ہی کھاتے تھے اور رات کو جب تک سوتے نہیں تھے ہم ستاروں سے تم انسانوں کی آنکھ مچولی لگی رہتی تھی لیکن جب سے بجلی آئی ہے اور پھر پنکھوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ایئر کنڈیشنر نے
تو تم لوگوں کو بالکل ہی کمروں میں بند کر دیا ہے بلکہ اب تو کاروں کے شیشے بھی بند ہوتے ہیں جس سے انسانوں سے ہمارا تعلق قریب قریب ختم ہو کر رہ گیا ہے لیکن بھلا ہو اس لوڈ شیڈنگ کا کہ جس نے تمہیں کبھی کبھی ہی سہی لیکن پھر سے کھلی صحت افزا آب و ہوا اور فضا میں سونے پر مجبور کر دیا ہے ۔ہم یقینا اس کی باتوں میں کھو جاتے لیکن پھر کالم کے عنوان کے ساتھ انصاف نہیں ہونا تھا اس لئے ہم اپنے عنوان کی جانب واپس آتے ہیں ۔
جناب لوڈ شیڈنگ کی کوئی ایک قسم نہیں ہے اور اس میں سب سے بے ضرر قسم شیڈول لوڈ شیڈنگ کی ہے ۔ اس لوڈ شیڈنگ میں شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور کبھی کبھی تو ہمیں اس پر بے تحاشا پیار بھی آتا ہے وقت پر جانا اور وقت پر آنا ۔ موجودہ دور میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈے تو ایسی شرافت کہیں نہ ملے لیکن اس کے بر عکس خدا غرق کریں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کو ۔ جنم جلی جب اچانک بغیر کسی اطلاع کے جاتی ہے تو کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے اور ہاتھ دعا کے لئے اٹھ جاتے ہیں کہ یا خدایا اڑوس پڑوس کے تمام فیڈروں اور پاور ہائوسز کی خیر رہو۔ اس لئے کہ یہ جب جاتی ہے تو پھر اس کا کوئی پتا نہیں ہوتا کہ اس کی واپسی کب ہونی ہے ۔لوڈ شیڈنگ کی ایک اور قسم ہے اور یہ بھی بڑی خطر ناک ہے ۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی چیز نایاب ہو وہ بڑی نٹ کھٹ اور نخرے والی ہوتی ہے ۔ سیانے کہتے ہیں کہ خدا حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے اور جس کے کروڑوں اربوں دیوانے ہوں تو اس کے اگر نخرے نہیں ہوں گے تو کیا ہمارے ہوں گے ۔ جناب ادھر آندھی آئے یا بارش تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ بارش کے پہلے قطرے اور آندھی میں ہوا کے پہلے جھونکے پر فیڈر نے ٹرپ کرنا ہے یا کچھ دیر بعد لیکن جب ٹرپ کر جانا ہے تو پھر بڑے بابا جی کے مزار پر منت مانے بغیر اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔اب بات کرتے ہیں لوڈ شیڈنگ کی اس قسم کی کہ جو توبہ توبہ کرا دیتی ہے جی ہاں اس کا نام ہے بریک ڈائون ہونا ۔جب بریک ڈائون ہوتا ہے تو پہلے تو ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے ایک آدھ گھنٹے تو ہمیں پروا ہی نہیں ہوتی لیکن جب یو پی ایس جواب دینے لگتا ہے تو پھر فکر شروع ہوتی ہے لیکن جب بجلی کمپنی والوں کو فون کرتے ہیں تو انھیں بھی صحیح معلومات نہیں ہوتیں کہ اصل میں کیا ہوا ہے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اگر دو تین گھنٹے سے اوپر بجلی چلی جائے تو گھر والوں کو ایک اور ہی طرح کی پریشانی لگ جاتی ہے اور بیوی کہتی ہے کہ اجی سنتے ہو ۔ اتنی دیر ہو گئی ہے بجلی نہیں آئی لگتا ہے کہ ملک میں کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے اسی دن کے لئے کہتی تھی کہ کالم نہ لکھو اور اگر لکھو بھی کسی کے خلاف نہ لکھو لیکن کہاں سنتے ہو ۔ بچو چلو بیٹا تیاری کرو ننھیال جانے کی ۔ میں تو کہتی ہوں جلدی کر لو پولیس کی گاڑیاں آتی ہی ہوں گی ۔ جس نے زہریلے کالم لکھے ہیں وہی بھگتے ہمیں کیا ۔ایک اور قسم ہے کہ جو ہماری ڈوبتی معیشت کے لئے کافی سود مند ہے کہ معیشت کا پہلا اصول ہے کہ پیسہ کو گردش میں رہنا چاہئے اور جب بار بار ٹرپنگ ہوتی ہے تو بجلی کی ہزاروں اشیاء جل جاتی ہیں کہ جنہیں پھر مرمت کے لئے کاریگر کے پاس لے جایا جاتا ہے اور اس میں کئی قسم کے پرزے بازار سے خریدنا پڑتے ہیں تو ٹرپنگ ڈوبتی معیشت کے لئے تریاق کا کام کرتی ہے اندازہ کریں کہ اگر پندرہ بیس ایئر کنڈیشنروں کے کمپریسر بھی جل جائیں تو فوری طور پر ڈیڑھ دو لاکھ روپے تو مارکیٹ میں تو آ جائیں گے۔
لوڈ شیڈنگ کی اقسام تو اور بھی ہیں لیکن دامن کالم میں گنجائش نہیں رہی اس لئے عزت مآب ٹرانسفارمر شریف پر آ جاتے ہیں اور میری تمام پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ اس کا نام ہمیشہ ادب اور احترام سے لیا کریں اس لئے کہ یہ کبھی بھی کسی بھی وقت بغیر کسی وجہ کے بنا کچھ بتائے جل جاتا ہے اور پھر یہی حال ہوتا ہے کہ
اشک رواں کی لہر ہے
اور ہم ہیں دوستو
انسانی زندگی میں خوشی کے چند مواقع ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جب دستی اسی وقت مٹھائی بانٹی جاتی ہے اور ان میں ایک موقع ٹرانسفارمر شریف کے دوبارہ لگنے کا ہوتا ہے ۔ شہروں میں تو پھر بھی جلدی لگ جاتا ہے لیکن گائوں دیہاتوں میں تو چار چار دن بلکہ ہفتہ گذر جاتا ہے لیکن ٹرانسفارمر شریف کی واپسی نہیں ہوتی اور قارئین گرمی ہو یا سردی بجلی نہایت ضروری ہے اس لئے کہ اب تو کھانے بھی مائیکروویو پر گرم ہوتے ہیں اور واشنگ مشین کے لئے بھی بجلی ضروری ہے اور سب سے اہم بات کہ انسانی زندگی کی سب سے اہم ضرورت پانی کی دستیابی بھی اب بجلی آپا کے بغیر ممکن نہیں۔