اسلام آباد: پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف پہلی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی۔
وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔ وفاق کی جانب سے مخدوم علی خان نے اپیل دائر کی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے اور عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ نیب ترامیم سے کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
درخواست گزار کے مطابق قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمان کے اختیار سے تجاوز ہے۔
نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل میں درخواست گزار نے فیڈریشن، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایاہے۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز (15 ستمبر ) اس کیس کا فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے حقوق متاثر ہوئے، عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بہت سے سیاستدانوں کے خلاف بند ہونے والے مقدمات دوبارہ بحال ہو گئے۔
نیب ترامیم کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس واپس بحال ہو گیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی ریفرنس احتساب عدالت سے منتقل ہو گیا تھا اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور ریفرنس بھی واپس ہو گیا تھا جو اب دوبارہ بحال ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کے فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔