ایک ایسے وقت میں جب ملک کو معاشی دباؤ کا سامنا ہے، ڈینگی،کورونا کے بعد سیلاب کی تباہی،بے گھر اجڑے لوگوں کی بحالی،برباد فصلوں کو پھر سے لہلہانے،مسمار گھروں کو تعمیر اور مصیبت زدہ لوگوں کے اطمینان و عافیت کو دوبارہ سے زندگی دینے کا مرحلہ درپیش ہے ہم گڈ اور بیڈ گورننس کی الجھن میں سرگرداں ہیں،تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات میں بہتری کا تعلق صرف معاشی پالیسیوں سے نہیں ایسے طرز حکمرانی سے بھی ہے، جس میں شفافیت، جوابدہی، شراکت داری، اتفاق رائے، انصاف، قانون کی بلاتفریق عملداری اور حکومت کی اثرپذیری شامل ہو ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے،مگر اس کے بر عکس ہم یقین و بے یقینی،اعتماد اور عدم اعتماد کے بھنور میں پھنسے وقت صلاحیت اور وسائل بیدردی سے ضائع کر رہے ہیں،اچھی حکومت کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک ماہر،تجربہ کار،فرض شناس اور دیانتدار حکومتی مشینری کاعکس ذہن میں آتا ہے،جی ہاں کسی بھی ریاست کی سلامتی اور بقاء کیلئے انتظامیہ ہی ہراول دستہ رہی ہے اور کسی بھی حکومت کی کامیابی میں انتظامی افسروں کا کلیدی کردار ہوتا ہے،مگر وائے ناکامی کہ ہم اس فورس کے ہوتے اس کے درست استعمال کے ہنر سے آگہی نہ رکھنے یا اپنے سیاسی اور ذاتی و گروہی اختلافات کو ترجیح دینے کی وجہ سے اچھی حکومت سے بھی محروم ہیں اور اس انتظامی فورس جس کے ہر افسر کی تربیت پر قومی خزانے سے خطیر رقم خرچ کی گئی اس کو بھی ضائع کر رہے ہیں۔
افسروں اور سروس کی ایسی بے توقیری شائد پتھر کے دور میں بھی نہ دیکھی ہو گی جو آج ہے،کسی افسر کو نہیں معلوم صبح وہ اس پوسٹ پر ہو گا یا نہیں،اس لئے کوئی سر درد لیتا ہے نہ دلجمعی سے فرائض منصبی ادا کرنے پر اس کی توجہ ہے،ایک افسر پر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ اعتراض اٹھاتا ہے تو دوسرے پر پی ٹی آئی کی کمیٹی معترض ہوتی ہے،سول سیکرٹریٹ کا کہیں کوئی کردار دور دور تک دکھائی پڑتا ہے نہ اسے در خور اعتناء سمجھ کر کوئی شریک مشورہ کرتا ہے،محض24گھنٹے میں تبادلے منسوخ اور نئی تعیناتی ہوتی ہے،نتیجے میں افسر بھی بس اس انتظار میں وقت گزاری کرتے ہیں کہ جانے کب تبادلے کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا جائے۔
وفاق اور پنجاب کے درمیان وفاقی افسروں کے تنازعہ کے بعد پنجاب میں یہ سوچ پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ سندھ کے طرز پر پنجاب میں بھئی صوبائی کیڈر کے افسروں کو کرتا دھرتا اور با اختیار بنایا جائے،پولیس کو وفاق کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے ڈی ایس پی سطح کے افسروں کی براہ راست بھرتی بھی زیر غور ہے،عجب بات ہے کہ وہ انتظامیہ جو حکومت کا چہرہ ہوتی ہے خود کئی گروپوں میں تقسیم ہے،حیرت یہ کہ ان گروپوں میں بھی کھینچا تانی ہے ایسی صورتحال میں حکمران طبقہ کیلئے لازم ہے کہ وہ نئے سرے سے اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے۔
سماجی و سیاسی علوم کے ماہرین گڈ گورننس کوآٹھ بنیادی اجزا کا مجموعہ قرار دیتے ہیں،جن میں شراکت داری، اتفاق رائے، تحرک، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ پن اور قانون کی عملداری جیسے خواص شامل ہیں.۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھ کر اقدام کیا جاتا ہے، معاشی اور سماجی ترقی کا گڈ گورننس کے ساتھ گہرا تعلق ہے جب تک اچھی پالیسیز نہیں ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں ہوگا، رول آف لا نہیں ہو گا۔،سٹیٹ، سوسائٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہو گا تو ظاہر ہے اس کا فرق معیشت پر پڑے گا اور اگر حکومت اور اس کی انتظامیہ میں تال میل ایک نہیں ہو گا تو سماجی اور معاشی امتزاج بھی بے کار کی رسم ہو گی،
اچھی حکومت کاانحصار اس بات پر ہے کہ حکومتی سربراہ نے خطرات کا تجزیہ کس طرح کر رکھا ہے، اس تجزیہ کی روشنی میں اس نے مناسب اور موضوع ٹیم کا انتخاب کیسے کیا، فیصلوں پر کس طرح سے عمل ہو رہا ہے اور کیسے ہونا چاہئے،اس کی ٹیم کی کارکردگی کیسی ہے،کوئی ڈھیلا ہے تو بجائے تبادلہ یا معتوب کرنے کے یہ دیکھنا کہ ناکامی کی وجہ کیا ہے،اس لئے کہ وجہ دور کئے بناء کوئی بھی افسر کارکردگی نہیں دکھا سکتا اور ناکامی کی وجوہ تلاش کرنا حاکم کا کام ہے۔
گڈ گورننس کے قیام میں ایک اہم رکاوٹ طویل مدت پالیسیوں کا فقدان ہے،ہر حکومت تو کیا ہر وزیر کے تبدیل ہونے کے بعد تدبیر بدل جاتی ہے،اور جن انتظامی افسروں نے ان پالیسیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوتا ہے ان کو خبر ہی نہیں ہوتی،ماضی و حال کی کوئی حکومت گڈ گورننس کے اصولوں پر کاربند نہیں رہی،گزشتہ حکومت میں احتساب کا بہت غلغلہ رہا،حکمرانوں کی کوشش تھی کہ لوٹ کا سرکاری مال وصول کیا جائے عوام کی بھی یہی خواہش تھی،مگر ہزار ہا کوشش کے باوجود حصے میں ناکامی آئی،تین ساڑھے تین سال میں معمولی کامیابیوں کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا،بے گناہ سرکاری افسروں کو رسوا کیا گیا،مگر بے سود لیکن کسی نے اس ناکامی کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی نہ کسی کو طویل المیعاد پالیسی بنانے کا خیال آیا اور نہ کسی نے کرپشن کے سوراخ بند کرنے کیلئے کسی پالیسی کی تشکیل پر زور دیا،یہی حال اچھی حکومت کے قیام اور حکومت بیوروکریسی میں بڑھتے فاصلوں کا ہے،کوئی ایسا نہیں جو سوچے کہ جن افسروں نے حکومتی پالیسیوں کو کامیا بی سے ہمکنار کرنا ہے وہ خود بے یقینی کا شکار ہیں،ان کی داد رسی تو نہ کی گئی مگر ان سے بہترین کارکردگی کا تقاضا کیا گیا اور انہیں بے اختیار بھی رکھا۔
کوئی حکومت گورننس پر واضح سمت نہیں رکھتی اس حوالے سے ”نئے سرے سے ترجیحات کے تعین کی ضرورت ہے“سرکار کو سب سے پہلے تو فائر فائٹنگ کے مرحلے سے باہر نکلنا پڑے گا، ایڈہاک بنیادپر لئے جانے والے اقدامات گڈگورننس کی تمام تھیوریز کے برعکس ہیں،حکومتی سربراہ اور اس کی ٹیم کو ہر پالیسی بیان پر اپنے اہداف بدلنے سے گریز کرنا چاہئے، معیشت بنیادی مسئلہ ہے، اگر حکومت اس کو سنبھالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے،لیکن اس کیلئے ضروری ہے مرکز،صوبہ،اضلاع اور مقامی سطح پر انتظامی معاملات کی سمت کا تعین کیا جائے، ایک قابل اعتماد،با اختیار انتظامی ٹیم جو حکومتی پالیسیوں کو اعتماد کیساتھ لے کر آگے بڑھے،اگر اگلے محاذ پر لڑنے والی حکومتی انتظامی مشینری کمزور ہو گی یاتقسیم کا شکار ہو گی تو بات آگے نہیں بڑھے گی،بلکہ مزید بگڑجائے گی،معیشت اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا ہے اور اچھی حکومت کیلئے ایک بہترین انتظامی ٹیم کا ہونا اشد ضروری ہے اور اس ٹیم کو ہم اپنے ہاتھوں سے انتشار اور خلفشار کا شکار کر رہے ہیں،جو ایسا نقصان ہے جس کا مداوا شائد آئندہ دہائیوں میں بھی ممکن نہ ہو۔