ہمارے صحافیوں نے اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے ایشو پرطوفان برپا کر رکھا ہے اور ہر کوئی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ باخبر ہے۔ میں نے کئی روز تک ان کے چینلوں کو سنا، ان کے ٹوئیٹس کو پڑھا، ہر کوئی اس اندھے کی طرح ہے جو یہ شور مچا رہا ہے کہ اس کے ہاتھ میں بٹیرا آ گیا ہے۔ کیا یہ غیر ذمہ داری اور مضحکہ خیزی کی انتہا نہیں ہے کہ اس معاملے میں جادو ٹونے اور عملیات تک کو گھسیٹ لیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی اور سیاستدان بغیر کسی علم کے محض اپنے مخالف کی توہین کرنے کی غرض سے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ مریم نواز بھی لگتا ہے کہ ملک کی دیگر اہم شخصیات کی طرح اپنے میراثیوں کے یوٹیوب چینلوں پر ہی گزارا کرتی ہیں لہٰذا انہوں نے بھی آئینی،قانونی اور دفاعی معاملے پرشوشا چھوڑ دیا کہ ملک کے اہم ترین معاملات جادو ٹونے کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد مجھے افسوس تو اس وقت ہوا جب دین اور طالبان سے تعلقات کے دعوے دار خیبرپختونخوا کے ایک صحافی نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ورد پروگراموں اور سوشل میڈیا پر شروع کر دیا۔ یہی کام علامہ شاہ احمد نورانی جیسے جید اور بڑے عالم کے صاحبزادے نے کیا وہ پی ڈی ایم میں اپنا مقام بنانے کے لئے کوشاں ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ مقام شائد جائز اور ناجائز خوشامد سے ہی بن سکتا ہے۔ یہ قرآنی آیات کا سیاسی مقاصدکے لئے ایسا استعمال تھا جس نے مجھے بہت دکھ دیا۔ یہ صحافی اورسیاستدان ثابت کرتے رہے کہ کسی جادو، ٹونے کی وجہ سے ایوان وزیراعظم سے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے کانوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جا رہا۔ کسی نے خیال ظاہر کیا کہ ابھی ساڑھ ستی جاری ہے اور کسی کا کہنا تھا کہ شخصیات کے نام میں ’ع‘ نہیں ہے۔
میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آج کل کامیاب صحافی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کسی نہ کسی کے درباری اور میراثی بن جائیں۔ اس کا آپ کو فائدہ یہ ہوگا کہ وہ گروہ آپ کا مربی بن جائے گا، آپ کو کسی بھی مشکل میں ریسکیو کرے گا، آپ کو سوشل میڈیا پر فالوئنگ دے گا مگر اس کا نقصان یہ ہوگا کہ صحافت دم توڑ دے گی۔ میں نے اس تنازعے میں یہی دیکھا کہ اگر کچھ نہیں ہو رہا تو وہ صحافت ہے اور اگر کچھ ہور ہا ہے تو وہ جگت بازی ہے۔ آج سوشل میڈیا پر سب سے بڑا صحافی وہ ہے جو سب سے بڑا جگت باز ہے، جھولی چک ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو حکمرانوں کی طرف سے بھی مس ہینڈل کیا گیا ورنہ اس کو چوکوں، چوراہوں پر ڈسکس نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آئی ایس آئی ہمارے ملک کی قابل فخرسکیورٹی ایجنسی ہے۔ اس کے کریڈٹ پرملکی تحفظ کے بے شمار ایسے کارنامے ہیں جو عوام میں بیان بھی نہیں کئے جا سکتے۔ یہ بات درست ہے کہ اس کے ملک کے اندر سیاسی کردار پر ایک دھڑے کو شدید اعتراضات ہیں اورا س کے نتیجے میں ہو یہ رہا ہے کہ جو کام پاکستان کے دشمنوں کو کرنا چاہئے وہ اس کے نادان دوست کر رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا تنازعہ ملک کے بڑے مل بیٹھ کر طے کر سکتے تھے، کسی ایک نام پر اتفاق ہوسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
میں نے صحافیوں کو میراثی اور سیاستدانوں کو نکمے کیوں کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنازعے کی اصل وجہ تک ہی نہیں پہنچ سکے۔ کسی زما نے میں صحافی خبروں کی تلاش کیا کرتے تھے، وہ اجلاسوں کے اندر کی خبریں ڈھونڈا کرتے تھے، فائلوں میں چھپے انگریزی کے درجنوں اور بیسیوں صفحات میں سے وہ پیراگراف نکال لیا کرتے تھے جن میں اصل بات ہوتی تھی۔ اسی طرح سیاستدان ہوا کرتے تھے جو مخالف کی ہر موو پر نظر رکھا کرتے تھے۔ جہاں جمہوریت مضبوط ہے وہاں اپوزیشن کو شیڈو کیبینٹ سمجھا جاتا ہے اور ہر شعبے کا ماہر اپوزیشن لیڈر اپنے شعبے کے اندر ہونے والی ہر پیش رفت پر نظر رکھتا ہے اور اسے گرفت میں لاتا ہے جیسے مسلم لیگ نون کے پاس رانا مشہود اور مجتبیٰ شجاع کے طور پر دو سابق وزرائے تعلیم ہیں، انہیں چاہئیے تھا کہ وہ کورونا کے دوران حکومتی پالیسیوں کے باعث اب تک ہونے والے تعلیمی نقصان پر نظر رکھتے، پنجاب کے بورڈز نے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج میں جوگل کھلائے ہیں ان کا جائزہ لیتے اور قوم کو آگاہ کرتے کہ اس پالیسی اور رزلٹ کے کیا نقصانات ہیں مگر کسی نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور اب زیر بحث سب سے بڑے معاملے پر بھی یہی ہوا کہ صحافیوں اور سیاستدانوں کو علم ہی نہیں ہوا کہ جناب عمران خان کی کابینہ کیا اقدام کر چکی ہے جس کے نتیجے میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کی سمری رکی ہوئی ہے اور معاملہ صرف ڈی جی آئی ایس آئی کا نہیں ہے بلکہ کابینہ ا ب تک کی اطلاعات کے مطابق رولز آف بزنس میں ترمیم کرتے ہوئے کرنل کے رینک سے اوپر کی تمام پوسٹنگز پر وزیراعظم کی رائے پر ایوان صدر کی منظوری لازم قرار دے چکی ہے جس کی تشریح یہ کی جارہی ہے کہ بریگیڈئیر کے لیول پر تمام پوسٹنگزاب وزیراعظم کی منظور ی سے ہوں گی۔
رولز آف بزنس میں ترمیم کے بارے میں اطلاع ایک وکیل صاحب نے کچھ سینئر کورٹ رپورٹرز کودی ہے اور اس کی کاپی بھی ان کو بھجوائی ہے جس کے بعد دعویٰ یہ ہے کہ رولز آف بزنس میں ترمیم گذشتہ برس آٹھ اکتوبر کو کی گئی اور یہ وہ وقت تھا جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع زیر بحث تھی۔ اسی دوران کابینہ نے خاموشی کے ساتھ یہ ترامیم منظور کر لیں اوریوں تمام نئی پوسٹنگز، آرمی چیف کی مکمل صوابدیدکے بجائے وزیراعظم کی منظور ی کے تابع ہوگئیں۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اگر مجھ تک پہنچنے والا ڈاکومنٹ جھوٹا اور فیبریکیٹڈ نہیں ہے تو یہ پوسٹنگز کے علاوہ بھی بہت سارے ایشوز کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہزار گنا بڑی خبر ہے۔ یہ اقدام اپنے سیاق و سباق اور تشریحات میں درست ہے تو ہماری افواج کے ستر برس کے مزاج کو بدل سکتا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سرکاری افسران پوسٹنگز تو بہت بڑی شے ہیں، ایک اچھی اے سی آر کے لئے کتنے حساس ہوتے ہیں۔ اس کی تشریح یہ بھی کی جارہی ہے کہ جناب عمران خان نے ہر اس شخص کو دھوکا دیا ہے جس نے ان پر احسان کیا ہے مگر اس کی تشریح یہ بھی کی جار ہی ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کے دوسرے برس میں ہی وہ کام کر دیا ہے جو نواز شریف اپنے اقتدار کے تین جنموں میں نہیں کر سکے کہ اب ادارے سویلین سپرمیسی کے تابع ہوں گے۔ اس کی ایک اور تشریح یہ ہے کہ کابینہ نے ادارے کی وہ آزاد اور خود مختار حیثیت ختم کر دی ہے جس میں سربراہ آل ان آل ہوتا تھا اور اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کا ممکنہ ردعمل کیا ہوسکتا ہے کیونکہ وزیراعظم کابینہ کی میٹنگ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کے اداروں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں جس کا مطلب ان کے مشہور زمانہ قول سے بھی لیا جاسکتا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ میں کسی حد تک حیران اس پر بھی ہوں کہ اگر یہ وی لاگر اور ڈاکومنٹ درست ہیں تویہ ہم جیسے نکمے صحافیوں اور نالائق سیاستدانوں کی نظر سے تو اوجھل رہ گیا مگر ان سے کیسے چھپا رہ گیا جن کے بارے میں تھا کہ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، بنیادی تبدیلی تھی۔