محسن پاکستان کی رحلت پر ہر پاکستانی کا دل افسردہ ہے اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور درجات بلند کرے۔ آمین۔ انہوں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر جو کارنامہ انجام دیا وہ رہتی دنیا تک ان کا اعزاز رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان کی پیدائش بھارتی شہر بھوپال میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ 1947 میں آزادی کے بعد وہ اور ان کا خاندان مستقل طور پر پاکستان آ گئے۔ انہوں نے 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جرمنی کے شہر برلن چلے گئے۔ برلن میں انہوں نے ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنس اور پھر بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے ڈاکٹریٹ آف میٹلرجیکل انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں، اس کے علاوہ انہوں نے ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔ 1976 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر واپس پاکستان آ گئے جہاں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی جس کا نام بعد میں ”ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز“ رکھ دیا گیا تھا۔ کے آر ایل انسٹی ٹیوٹ نے ان کی سربراہی میں نا صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 13 طلائی تمغوں سے نوازا گیا جب کہ آپ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈز بھی دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ
عبدالقدیر نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی تحریر کیے۔ 1996 میں جامعہ کراچی نے عبدالقدیر کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند عطا کی جبکہ 14 اگست 1996 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا اور پھر 1989 میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
اب آتے ہیں ان کی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی کوششوں کی طرف۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے خواب کو عملی شکل بنانے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر تھے۔ بھارت کے 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے دفاع کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے اور بھارتی حکومت نے اس حوالے سے پاکستان کو کھلی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ اپنے دفاع اور علاقے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا کہ وہ بھی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا بھرپور جواب دے۔ اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ ذمہ داری ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ڈالی اور بڑی قلیل مدت میں ان کی سربراہی میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا۔ اس وقت پاکستان پر یہ دھماکے نہ کرنے کے لیے شدید عالمی دباؤ تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور عسکری قیادت نے اس دباؤ کو خاطر میں نہ لا کر قومی حمیت کا ثبوت دیا۔ جس کے لیے وہ تحسین کے لائق ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن ہم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتے۔ ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کا ایک غاصب آمر کی ایما پر عدالتی قتل کرا دیا گیا اور ان کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر بھی عرصہ حیات تنگ کیے رکھا۔ ان کی وفات کے بعد تو انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن اپنی زندگی میں وہ اسیر ہی رہے۔ ایک اور ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ان پر ایک ایسا الزام لگایا گیا جس کی شفاف تحقیق کی گئی نہ وہ سامنے آ سکی۔ لیکن ایک آمر کے حکم پر ڈاکٹر قدیر معتوب ٹھہرے۔ آنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی اس حوالے سے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہ کی اور محسن پاکستان یہ داغ لے کر قبر میں اتر گئے۔
میں نے دی نیوز کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کیا اور اس بارے سوال بھی کیا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کی اور کہا کہ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے۔ میرے ذمہ جو کام لگایا گیا تھا وہ میں نے احسن طریقے سے انجام دیا اور عوام نے مجھے بے پناہ پذیرائی، عزت و محبت دی وہی میری زندگی کا اثاثہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی قوت کے حصول سے باز رہنے کے لیے ہنری کسنجر نے انہیں کھلی دھمکی دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کر دیں لیکن وہ اسے خاطر میں نہ لائے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام آنے والی حکومتوں نے بھی جاری رکھا کیونکہ یہ پاکستان کے دفاع کا تقاضا تھا۔ جب میں نے کہا کہ آپ کا احسان پاکستانی قوم ہمیشہ یاد رکھیں گے تو کہنے لگے مجھے اس لفظ احسان سے چڑ ہے بطور پاکستانی میرا فرض تھا جو میں نے ادا کر دیا۔
آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم میں نہیں لیکن پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر وہ ہر پاکستانی کے دل میں رہیں گے۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔