بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والا بچہ والدین کے ہمراہ ہجرت کرتے ہوئے جب نو زائیدہ مملکت میں قدم رکھتا ہے تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہی ریاست اس کو عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کر ے گی، نہ ہی اسکے والدین نے کبھی یہ توقع کی ہوگی کہ اِنکا یہ فرزند ارجمند عالمی حوالہ بن جائے، وہ تو صرف خاندان کے اچھے مستقبل کے لئے ہجرت کا دُکھ اُٹھا رہے تھے، بے سرو سامانی کے عالم میں پہلا پڑاؤ کراچی ڈالا اور اس شہر ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔
زندگی کی بہاریں دیکھتا یہ بچہ اَب کراچی میں جامعہ کا طالب علم تھا، اگر اللہ تعالیٰ نے بلا کی ذہانت عطا کی تھی تو اس نے محنت کر نے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی،روشن مستقبل کے خواب جاگتی آنکھوں سے جس طرح ہر نوجوان دیکھتا ہے اس طرح اِسکی بھی خواہش تھی کہ تعلیم سے فراغت کے بعد بہترین روزگار میسر ہو جائے،وہ اعلیٰ تعلیمی کی اچھی پرفارمینس پر بیرون ملک کی جامعہ میں وظیفہ کے لئے درخواست گزار ہوتا ہے، قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے یہ جرمنی اور بعد ازاں ہالینڈ، بیلجیم کا رخت سفر علم کی پیاس بجھانے کے لئے باندھتا ہے، بیلجیم کی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرتا ہے، یورپ میں ممتاز سائنسی، تحقیقی اداروں کا حصہ بننے والا یہ نوجوان اب ڈاکٹر ہی نہیں سائنس دان بھی بن جاتا ہے، سیرو تفریح کا رسیا ملکوں ملکوں گھوم کر لطف اندوز ہوتا ہے۔
ٹی وی کی سکرین پر چلنے والا جنوبی ایشیا کا ایک المناک منظر تو اِس کے دل کی دُنیا ہی بدل دیتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ مادر وطن کی منظم فوج دشمن کے سامنے ایک تقریب میں ہتھیار پھینک رہی ہے،اس کا دل غمگین ہو جاتا ہے،اُسی وقت وہ اپنے وطن کو ناقابل تسخیر بنانے کا عزم کرتا ہے، ستر کی دہائی میں فیملی کے ساتھ کرسمس کی چھٹیاں منانے پاکستان آ جاتا ہے، یہاں بھی ملکی دفاع کو مضبوط بنانے پر مشاورت ہو رہی ہوتی ہے۔
یہ نوجوان سائنس دان اُس وقت کے وزیر اعظم سے ملتا ہے، وہ اس کام کو دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں، جو ایٹمی پروگرام کی بابت جاری وساری ہوتا ہے،غیر منظم انداز میں رواں کام کی رپورٹ وہ وزیر اعظم کو پیش کرتا ہے،مکار دشمن کی موجودگی میں آدھا ملک گنوانے کے بعد مقتدر طبقے اس کے وجود کے
بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، وزیر اعظم کراچی آئے مہمان کا پروگرام پوچھتے ہیں، وہ واپس اپنی ملازمت پر جانے کا عندیہ دیتا ہے، وزیراعظم انہیں یہیں رُک جانے کا مشورہ دیتے ہیں، اگرچہ اس کے لئے سب کچھ غیر متوقع تھا، لیکن ملک کی خاطرمستقل قیام کرتے ہوئے وہ اپنی اور خاندان کی خواہشات کو قربان کرتا ہے اوربخوبی اسکے نتائج سے بھی آگاہ ہوتا ہے، یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان سمیت اِسکی سماجی زندگی بالکل مفقود ہو کر رہ جائے گی۔
باوجود اس کے دھرتی کے سپوت نے یہاں قیام کے لئے نہ تو کڑی شرائط رکھیں نہ ہی بھاری بھر معاوضہ طلب کیا، دُنیا اس سائنس دان کو ڈاکٹر قدیر خاں کے نام سے جانتی ہے۔
ریاست کو جب ایٹمی طاقت بنانے کی ٹھان لی، تو پھر کسی بھی بلیک میلنگ میں نہیں آئے، اور سات سال کی قلیل مدت اور انتہائی کم خرچ میں اس پاک سرزمین کو پہلی ایٹمی طاقت بنا کر دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنا دیا، ڈاکٹر خان کو کیا علم تھا کہ جو ریاست اِنکی جنم بھومی ہے اس کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف ہی انہیں سینہ تان کر میدان میں اُترنا پڑے گا۔ایٹمی دھماکے کر کے جب باضابطہ ایٹمی قوت بننے کا اعلان کیا گیا تو اہل وطن کی خوشی کی انتہا نہ رہی،ڈاکٹر خان محترم کے لئے دل میں احترام عقیدت میں بدل گیا،وہ قومی ہیرو کے طور پر نمایاں ہوئے۔
تعصب کی آنکھ اور دل رکھنے والی مغربی دنیا غیر متوقع کامیابی پر قطعی خوش دکھائی نہیں دی، معاشی پابندیوں کے ہتھیار کو استعمال کرنے میں ذرا تامل نہ کیا، جب دیکھا کہ اس کے باوجود قوم شاداں ہے، تو نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر یہ پروپیگنڈا کیا، ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں،اِسی تناظر میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ ایٹمی میٹریل غیر قانونی طور پر ان ممالک کو فراہم کیاگیا ہے جو اَنکل سام کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں، اس کی پاداش میں ڈاکٹر قدیر خان کو قربانی کا بکرا بنانے کی باضابطہ منصوبہ بندی کی گئی، سپہ سالار اور آمرجن کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں کی حکومت میں قوم یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ڈاکٹر خان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک ہو گا، ایک منظم فوج، ایٹمی قوت بھی ڈاکٹر خان کی عزت محفوظ نہ رکھ سکی، میڈیا پر اِنکی نام نہاد معافی کوپوری دُنیا نے قومی بے حسی کے ساتھ دیکھا،اِس سلوک پر وہ نجی میڈیا کے ساتھ گفتگو میں شکوہ کرتے دکھائی دیئے،مقتدر طبقہ اور سیاسی قیادت کو اس”سانحہ“کے بعد بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان سے اس غیر اخلاقی حرکت پر اِسی طرح میڈیا پر آکر ڈاکٹر خان کی اشک شوئی کے لئے معذرت ہی کر لیتی۔
پوری قوم آج سکون کی نیند سوتی ہے، مسلح ا فواج جس کے لئے ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے اِس کے پیچھے ڈاکٹر خان اور اِنکی ٹیم ہی کا تو ہاتھ ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم بھی پڑوسی ملک کی اچھی تقلید میں ملکی صدارت کا منصب اِنکے حوالہ کر کے ان سے الفت، عقیدت کا پیغام دنیا کو دیتے ہم تو اتنے محسن کش ثابت ہوئے کہ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم کو اپنی نجی زندگی آزادانہ گزارنے کے لئے بھی عدالت عظمیٰ کے در پر دستک دینا پڑی۔اِنکی کل پونجی سے بنا مکان بھی سی ڈی اے مسمار کر دیتا اگر اُس وقت کے وزیر داخلہ موقع پر پہنچ کر سرکاری مشینری کو نہ روکتے۔اِن سے محبت کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے کے باوجود انہیں پارلیمنٹ کا ممبر منتخب نہیں ہونے دیا۔
ڈاکٹر قدیر خان فرماتے تھے کہ جو قومیں اپنی تاریخ ساز شخصیات اور واقعات کو یاد نہیں رکھتیں، جلد یا بدیر تاریخ بھی انہیں فراموش کر دیتی ہے، ذہنی غلامی اور خوف کا عالم تو یہ تھا کہ ان کے جنازے کو کندھا دینے کی سعادت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا،اِنکی وفات پرالسٹرڈ ویکلی آف انڈیا نے لکھا کہ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ڈاکٹر قدیرخان کی طرح پاکستان کی خدمت کی اور خود کو مادر وطن کے لئے وقف کر دیا۔
تحریک لبیک کے بانی علامہ خادم رضوی مرحوم نے جب ڈاکٹر خان کے ہاتھ چومے تو انہوں نے سبب پوچھا،علامہ مرحوم نے فرمایا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے تیر بنایا، جس نے جنگ اور جہاد میں پکڑایا اور جس نے چلایا وہ سب جنت میں جائیں گے، اس اعتبار سے ڈاکٹر قدیر خان اور وہ تمام افراد جو ایٹمی بم بنانے میں معاون اور مدد گار رہے، جنت کے راہی ہیں، سرکار کی تمام تر لغزشوں کے باوجودڈاکٹر قدیر مرحوم قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، تاریخ انہیں کبھی بھی فراموش نہ کر سکے گی، عزت اور ذلت کس کا مقدر بنتی ہے اس کا فیصلہ قادر مطلق کے علاوہ بھلا کون کر سکتا ہے۔