لاہور: اگر آپ کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود جماہی آنے لگے گی۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟
تحقیق کے مطابق تھکاوٹ، نیند یا اکتاہٹ کا شکار افراد عام طریقے سے سانس نہیں لے پاتے۔ اس دوران جسم میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے، جسے کم کرنے کیلئے ہمارا منہ قدرتی طور پر کھل جاتا ہے اور جمائی آ جاتی ہے، اس عمل سے ہمارا جسم زیادہ سے زیادہ آکسیجن اپنے اندر لینے کی کوشش کرتا ہے اور ہمارے خون سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو جاتا ہے۔
کسی شخص میں جمائی لینے کی خواہش میں کمی اسی مناسبت سے پوتی ہے کہ اس ک دماغ کا حصہ کس طرح سے کام کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننا تھا کہ ایکسائیبیلٹی یعنی تحریک پذیری کا عمل کیسے ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ متعدی جمائی ’’ایکوفینومینا‘‘ یا گونج کے عمل جیسا ہی ہے جس میں انسان خود بخود ہی کسی دوسرے کی آواز یا عمل کی نقل کرنے لگتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ دماغ کے جس حصے میں اعصابی افعال کو منظم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہیں سے جمائی کا عمل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔
یہ جاننے کیلئے کہ ایکوفینومینا جیسی صورت حال میں آخر دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے رضاکاروں کا اس وقت معائنہ کیا جب وہ دوسروں کو جماہی لیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
تحقیق کے دوران کچھ رضاکاروں سے کہا گيا تھا کہ اگر انہیں جمائی آئے تو وہ جمائی لیں جبکہ کچھ سے کہا گیا کہ اگر انہیں جمائی آئے تو وہ اس پر کنٹرول کریں اور اس سے گریز کریں۔
نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو گیلپ کا کہنا ہے کہ ہمیں ابھی بھی نہیں پتا ہے کہ آخر ہم جمائی کیوں لیتے ہیں، البتہ بہت سی تحقیقات سے لوگوں کی حرکات وسکنات اور متعدی جمائی کے درمیان رابطے کا پتا چلا ہے۔
نیورولوجی کے ماہر پروفیسر جیورجیئن جیکسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہونے والی دریافت کا استعمال بہت سی دیگر خامیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے پروفیسر اسٹیفین جیکسن کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ دماغ کے اس حصے میں ہونے والی تحریک پذیری کو، جو کئی قدرتی خرابیوں کی وجہ بنتی ہے، کیسے بدلا جاسکتا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اسے ہونے سے روک سکیں ۔‘‘