گذشتہ ہفتے سے سیاسی ہواؤں کا رخ پنجاب سے بلوچستان کی طرف تھا لہٰذا بلوچستان کے پانیوں میں بلند لہریں اٹھتی نظر آئیں ن لیگ کے رہنما جناب نواز شریف کے ہمراہ خاندان کے افراد کے علاوہ کچھ بچے بچونگڑے بھی تھے جو ایسے دوروں پر ہمیشہ ساتھ نظر آتے ہیں یہ سیاسی ملاقاتوں کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں انکی غیر موجودگی میں ملاقاتیں ادھوری سے بھی کم سمجھی جاتی ہیں یہ لوگ بات بصد اجازت ٹھاہ کر کے مقابل کے منہ پر مارتے ہیں جو پارٹی رہنما خود اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتا اس قسم کی بات سامنے بیٹھے کے ماتھے پر یوں لگتی ہے جسے منجھے ہوئے بیٹر کا شاٹ لیگ پر کھڑے فیلڈر کے منہ پر، گیند منہ پر لگنے کے بعد جس طرح تمام فیلڈر بھاگے بھاگے آتے ہیں اور مضروب کا منہ سہلانا شروع کرتے ہیں اس طرح سیاسی ملاقات میں پارٹی لیڈر اپنے میزبان کا منہ ماتھا سہلا تا ہے کچھ دیر بعد حالات نارمل ہو جاتے ہیں درد رفع ہو جاتا ہے اور پیار کی پینگیں چڑھنا شروع ہو جاتی ہیں، پینگ کی طرح پیار کی پینگوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے حد سے باہر نکل جائیں تو پینگ الٹ جاتی ہے جھولا لینے والا کبھی منہ کے بل گرتا ہے کبھی سر کے بل، کئی چوٹوں کا علاج ملک میں دسیتاب ہی نہیں۔
جناب نواز شریف کا سیاسی دورہ کامیاب بنایا جا رہا ہے نتیجہ انکی پارٹی نے خود ہی سنایا ہے جس کے مطابق تیس سے زیادہ سیاسی شخصیات نے انکا ساتھ دینے کی حامی بھری ہے جس میں جام کمال اور سردار رحمن کھیتران شامل ہیں رئیسانی برادران سے ملاقات میں شہباز شریف خاصے گرمجوش نظر آئے میزبان نے انہیں اپنی روایات کے مطابق زمین پر بٹھایا اور خوب آؤ بھگت کی۔ جناب شہباز شریف کیلئے زمین پر بیٹھنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے انھیں کرسی پر بیٹھنے کی عادت پڑ چکی ہے، وہ عام کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے انکے لیے کرسی بھی خاص ہوتی ہے وہ جہاں جہاں جاتے ہیں کرسی خاص ساتھ جاتی ہے۔ یہ کرسی بلوچستان بھی گئی ہو گی لیکن حالات کا جبر انہیں کرسی کے ہوتے ہوئے بھی زمین پر بیٹھنا پڑا، شہاز شریف کمر درد کے مریض بتائے جاتے ہیں لگتے نہیں، جانے وہ کیسے زمین پر بیٹھے ہونگے اور پھر کیسے زمین سے اٹھے ہونگے یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں گھٹنوں میں درد اور کمر درد کا مریض خود زمین پر بیٹھ سکتا ہے نہ اٹھ سکتا ہے اسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، سہارا بھی عام نہیں بلکہ خاصا مضبوط سہارا، اقبال بانو کی گائی غزل آ گئی، ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے۔ بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے۔
رئیسانی برادرز نے انہیں زمین پر بٹھا کر انکی کمر کے کڑا کے نکال دیئے ہونگے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انکی کمر کے کڑاکے یعنی کمر درد موجود ہی نہ ہو سب کچھ اونچی کرسی پر بیٹھنے کا اک بہانہ ہو، کمر درز کے مریض کی شکل پر ہمیشہ بارہ بجے نظرآتے جبکہ شہباز شریف ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں حالانکہ انکی کمر پر ہمیشہ دیگر سیاستدانوں کی نسبت بوجھ کچھ زیادہ ہی پڑتا ہے۔
جناب نواز شریف صوبہ خیر کا دورہ بھی کریں گے، انکا یہ دورہ منہ نمکین کرنے کیلئے ہو گا زیادہ تر معاملات مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے ذمہ ہیں پھر دورہ سندھ کے بارے میں سوچا جائے گا۔ ایم کیو ایم سے اتحاد کے بعد جی ڈی اے اور فنکشنل لیگ کی میزبانی کا لطف اٹھانا بھی ضروری ہے لیکن شرفا سندھ میں اتنا ہی جائینگے جتنا بلاول بھٹو یا آصف زرداری صاحب پنجاب آئیں گے، پیپلز پارٹی کی قیادت جنوبی پنجاب پر زیادہ توجہ دے گی اور جہانگیر ترین و علیم خان صاحب سے قربتیں بڑھانے کی کوشش کرے گی۔ جماعت اسلامی، تحریک لبیک نے اپنی سیاسی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے غزہ کارڈ خوب کھیلا ہے اور دل سے کھیلا ہے ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک لبیک کا مارچ بھی متاثر کن تھا وہ دو فریقوں کے درمیان کھڑے ہو گئے تو ایک کی شکست میں اہم کردار ادا کریں گے شرفاء کچھ عرصہ قبل کہتے پائے گے کہ انکے پاس ضرورت سے زیادہ امیدوار ہیں، ٹکٹوں کا بھاؤ بڑھ جانے کے بعد اب نئی پیشکش سامنے آئی ہے کہ ہمارے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں اسکا مطلب یہ ہوا گنجائش موجود ہے مضبوط امیدوار ہتھے چڑھ گئے تو کمزور امیدواروں کی چھٹی ہو جائیگی، سمجھدار امیدوارانِ ٹکٹ ہاتھ کھول کر نہیں ہاتھ کھینچ کر خرچہ کر رہے ہیں گھمسان کا رن ابھی بہت دور ہے، کسی بھی جماعت میں کسی بھی قیمت پر شامل نہ ہونے والے سیاستدان میدان بھی اپنے اپنے حلقوں میں متحرک ہیں۔ وہ حرکت میں برکت پر یقین رکھتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے وہ حرکات شروع کر دی ہیں جو آئین کی شق 62-63 کے شکنجے میں کس دیتی ہیں، اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں ”سب چلتا ہے“ انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے۔ ایسا سوچنے والوں کا اچانک ”چل چلاؤ“ ہو جاتا ہے۔ بلاول بھٹو کی باتوں سے لگتا ہے وہ ایک دو سیٹوں کے پیچھے جانے پر یقین نہیں رکھتے، اطلاعات آرمی ہیں وہ ایک سے دو درجن سیٹوں والوں کے پیچھے ہیں معاملات عرصہ دراز تک خفیہ رکھے جائینگے۔ نظریہ ضرورت کے تحت اعلان کیا جائے گا، جس تیزی سے انتخابات کے حامی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ان سے زیادہ تیزی سے وہ بھی متحرک ہیں جن کا خیال ہے کہ انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ملک کی معیشت اسکی متحمل نہیں ہو سکتی۔ آنے والی حکومت سو وزیروں کی کابینہ بنا کر نئے ٹیکس لگا کے عوام کا جینا دو بھر کر کے کہے گی کہ یہ سب کچھ کرنا ہماری مجبوری ہے۔ ہم سے پہلی حکومت ملک کا خانہ خراب کر گئی ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔
پنڈی بوائے جو اب بوائے نہیں رہا اس کے اور کتنے ہی بوائز ہیں پھر وہ عمر کے اس حصے میں ہے جب نصف درجن بوائز اینڈ گرلز کے نانا جان دادا جان بن جاتے ہیں، وہ چلّے پر جانے سے قبل کہتا تھا مرتے دم تک خان کے ساتھ ہوں۔ کیونکہ میں اصل ہوں اور نسلی ہوں۔ چلّے سے واپسی پر بعد از تیل مالش کہتا ہے میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ساتھ ہی کہتا ہے میں اصلی ہوں نسلی ہوں، اسکی چالیس سالہ پارٹیاں بدلنے کی تاریخ، گدھے کو بوقت ضرورت باپ بنانے کا طریق واضح کر چکا ہے کون کتنا اصلی ہے کتنا نسلی ہے۔ حالات نے ثابت کر دیا اتنا نقلی بھی شاید کوئی نہ ہو گا۔ آخر میں سوشل میڈیا کا ایک کلپ گھر کے کسی کونے میں چیتے کو پٹہ ڈال کر باندھ دیا گیا ہے۔ چند لمحوں بعد ایک کتا ادھر آ نکلتا ہے اور چیتے پر بھونکنا شروع کر دیتا ہے۔ چیتا پہلے تو اسے خاطر میں نہیں لاتا پر کتا اس کے گلے پڑنے لگتا ہے تو وہ بڑھ کر کتے کو گردن سے پکڑ لیتا ہے اور گردن چبا ڈالتا ہے، کتے کی چیخیں سمان باندھ دیتی ہیں اصل نسلی اور نقلی کا فرق واضح ہو جاتا ہے، فرق تو کب کا واضح ہو چکا کوئی اس سے آگے بھی تو سوچے۔