اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لانگ مارچ روکنے کے انتظامیہ کے پاس وسیع اختیارات ہیں ہم انتظامی معاملات میں مداخلت کیوں کریں؟
سپریم کورٹ میں عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کے خلاف سینیٹر کامران مرتضی کی درخواست پرچیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کیلئے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے.ایڈووکیٹ جنرل کے بیان کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹادی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملات خراب ہوئےتو دوبارہ درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
درخواست گزار کامران مرتضیٰ کا کہناتھا کہ دو ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق جمعے یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا۔ لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔ لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں ۔ غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کیلئے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے۔ اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے۔ آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے۔