ذکر علامہ اقبالؒ کے اردو مجموعہ کلام "ضرب کلیم" کے عنوان "اسلام اور مسلمان" کے تحت نظموں کا ہو رہا تھا۔"معراج"چار اشعار پر مشتمل ایک اور چھوٹی سی نظم ہے جو "ضرب کلیم" کے اسی حصے میں شامل ہے۔ اس کا تیسرا شعر ہے۔
ناوک ہے مسلماں! ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سِرا سرا پردہ جاں نکتہِ معراج
مسلمان کی حیثیت ایک تیر کی طرح سمجھی جائے تو اس کا ہدف آسمانوں کی بلندی پر ستاروں کا جھرمٹ ثریا ہے ۔ اقبالؒ کہنا چاہتے ہیں کہ معراج کے واقعے کے اندر جو باریک رمز چھپی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلماں اگر خدا کا فرمانبردار بندہ بن کر اپنے اندر ولولہ اور شوق پیدا کرتے ہوئے نبی پاک کے رستے پر کاربند ہو جائے تو پھر کائنات کی تسخیر اس کے لیے ناممکن نہیں ہے۔
"سلطانی"، "ضربِ کلیم"کی سات اشعار پر مشتمل ایک اور نظم ہے جو علامہ اقبال ؒنے اپنے قیام بھوپال کے دوران کہی۔ اس کا دوسرا شعر ہے۔
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی
اقبال ؒکے ہاں خودی کا لفظ یا اصطلاح بہت جگہوں پر استعمال ہوئی ہے۔ اقبال ؒکے نزدیک خودی اپنی ذات کی پہچان ، خوداری اور خودشناسی ہے۔ ایک بندہ (مردِ مومن) جب اپنے اندر خودی کی صفحات پیدا کر لیتا ہے تو ایک لحاظ سے اپنی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے۔ جیسے اقبال ایک اور جگہ کہتے ہیں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال ؒخود ی کی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی کو جب یہ وجدان حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ہر دوسری شے پر غلبہ پانے کی طاقت رکھتی ہے اور ہر ایک پر فاتحانہ شان سے حکمرانی کر سکتی ہے تو یہی وہ مقام ہے جسے سلطانی کہا جا سکتا ہے۔
"ضربِ کلیم"کے حصہ "اسلام اور مسلمان" میں شامل "تصوف" ایک اور نظم ہے۔ پانچ اشعار پر مشتمل یہ نظم بھی علامہ اقبال ؒنے اپنے قیام بھوپال کے دوران کہی۔ اس نظم کا پہلا شعر ہے
یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اقبال ؒکے ہاں صوفی اور ملا کے الفاظ یا اصطلاحیں بکثرت استعمال ہوئی ہیں۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ ملا کے واعظ و نصیحت میں اور صوفی کی مستی اور فکر و ذکر میں وہ تاثیر نہیں ہے جو مسلمان (اُمتِ مسلماں) کے دکھ درد ، بے عملی اور غلامی میں ڈوبے
ہونے کا علاج کر سکے۔ نظم "تصوف" کے اس شعر میں بھی اقبال ؒاسی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے صوفی تیری فرشتوں کے جہاں تک رسائی میں جو رسائی ہے اور تیرے الوہیت (لاہوتی) کے عالم کا جو علم ہے اس کی کچھ بھی حیثیت اور اہمیت نہیں ہو سکتی جب تک کہ دورِ حاضر کے مسلمانوں یا اُمتِ مسلمہ کے دکھوں اور مسائل کا اس سے علاج نہیں ہوتا۔
"وحی" ، "ضربِ کلیم "کے حصہ اسلام اور مسلمان میں شامل تین اشعار کی ایک اور نظم ہے جو علامہ اقبال ؒنے اپنے قیام بھوپال کے دوران کہی۔ اس میں وحی کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا لیکن اس کے اس (تیسرے) شعر میں وحی کی طرف اشارہ موجود ہے۔
خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر
گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات
جب زندگی خود زندگی کے اسرار رموز اور بھیدوں کی شرح کرنے والی نہ ہو تو پھر اس بات کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ زندگی کا کونسا عمل اچھا اور خوب ہے اور کونسا برا اور نا خوب ہے۔ اقبال ؒ کا اشارہ اس نکتے کی طرف ہے کہ ہدایت اور راہنمائی کی طلب انسانی زندگی کی جبلت میں شامل ہے۔ اور اس کی یہ طلب یا احتیاج فکر سے نہیں بلکہ وحی سے پوری ہوتی ہے۔ اللہ کریم نے انسانی زندگی کی ہدایت اور راہنمائی کی احتیاج کو پورا کرنے کے لیے ہر دور میں نبی، رسول اور پیغمبر مبعوث فرمائے۔ ان پر اپنی وحی کا نزول فرمایا۔ حضرت محمد اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ پر وحی کا سلسلہ ختم ہو گیاآپ کے بعد کوئی اور پیغمبر یا رسول نہیں آسکتا، نہ آیا ہے نہ آئے گا۔ اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا ہے تو جھوٹا، کافر اور مرتد ہے۔ اللہ کریم کا پاک کلام قرآن مجید جو وحی کی صورت ہمارے پیارے نبی پر نازل ہوتا رہا اور آپ کی حدیث مبارکہ اور سنتِ طیبہ ، ہدایت اور راہنمائی کے وہ سرچشمے ہیں جن سے تاقیامت انسانیت، ہدایت اور راہنمائی حاصل کرتی رہے گی۔
"ضرب کلیم"کے حصہ "اسلام اور مسلمان"میں شامل تین اشعار پر مشتمل نظم "مومن"بھی علامہ اقبال نے اپنے قیام بھوپال کے دوران کہی۔ اس نظم کا پہلا شعر ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ہے
رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن
اقبالؒ کے نزدیک مومن اپنے مسلمان بھائیوں اور دوستوں میں ہوتا ہے تو وہ ریشم کی طرح نرم اور ملائم ہی نہیں ہوتا بلکہ اخوت ، مروت، رواداری اور ہمدردی اس کا شیوہ ہوتا ہے۔ لیکن جب حق و باطل کے معرکے میں اس کا مقابلہ اور سامنا دین کے دشمنوں سے ہوتا ہے تو پھر وہ فولاد کی طرح سخت ہو کر ان کا مقابلہ کرتا ہے اور ضرب کاری سے کام لیتا ہے۔ اقبالؒ نے مردِ مومن کے بارے میں ایک اور جگہ کہہ رکھا ہے :
جس سے جگرلالہ میں ہو ٹھنڈک وہ شبنم
دریاﺅں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
"اے روح محمد" چار اشعار پر مشتمل یہ نظم "ضربِ کلیم"کے حصہ"اسلام اور مسلمان"کی ایک اور اہم نظم ہے۔ اس میں اقبالؒ کائنات میں جاری و ساری روح محمد سے عاجزانہ انداز میں سوال کرتے ہیں کہ اللہ کے پاک نبی بتائیے کہ آپ کی اُمت، آپ کے ماننے والے مسلمان اور آپ کے نام لیوا جو آپ کی تعلیمات کو بھولے ہوئے ہیں کدھرجائیں؟
اس راز کو اب فاش کردے اے روح محمد
آیاتِ الٰہی کا نگہباں کدھر جائے
"امرائے عرب سے" ، علامہ اقبال ؒکی تین اشعار کی ایک چھوٹی سی نظم ہے جو علامہ اقبال ؒنے قیام بھوپال کے دوران کہی۔ یہ نظم بھی "ضربِ کلیم"کے حصہ"اسلام اور مسلمان" میں شامل ہے۔ اس نظم کے اشعار میں اقبال ؒعرب کے اُمراءسے شکوہ سناں ہیں کہ آپ لوگوں کا وجود اور آپ کی حیثیت اور عزت محمد عربی کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں تھی۔ محمد عربی نے رنگ، نسل، خون، وطن اور جغرافیائی حدوں کو بھلا کر دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم دی اور اسی کو فضیلت اور بڑائی کا پیمانہ قرار دیا جبکہ اے امرائے عرب آپ لوگوں نے حضور کی تعلیمات کو بھُلا دیا ہے اور اس کی جگہ افتراق ابو لہبی کو اختیار کر رکھا ہے۔ یہاں اشارہ حضور کے چچا ابو لہب کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدِ عربی سے ہے عالمِ عربی
اقبالؒ کے مجموعہ کلام"ضربِ کلیم" کے حصہ "اسلام اور مسلمان"میں شامل کچھ نظموں کا حوالہ اور ان کے چیدہ چیدہ اشعار کی تشریح و توضیح ظاہر کرتی ہے کہ اقبالؒ کا یہ مجموعہ (ضرب کلیم) دورِ حاضر کے خلاف ایک طرح کا اعلانِ جنگ ہے۔ اس میں دورِ حاضر کے تمام بتوں اور خداؤں کو خواہ وہ رنگ و نسل اور قومیت کے ہوں، علاقائی اور جغرافیائی تعصب کے ہوں، غیر اسلامی تعلیمات اور شرک و بدعات کے ہوں، اُمت مسلمہ میں پائی جانے والی بے عملی اور دین سے دوری کے ہوں یا تہذیب حاضر کے منفی اثرات اور مغربی تعلیم کی فتنہ سامانیوں کے ہوں، اقبال ؒنے ان سب کو چیلنج کیا ہے اور مسلمانوں ( امتِ مسلمہ) کو تلقین کی ہے کہ وہ سینہ سپر ہو کر ان جھوٹے خداؤں کا مقابلہ کریں۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری