”ریچھ کی ٹانگ کی ہڈی میں دو تین سوراخ کر کے اسے بطور ساز استعمال کیا گیا یعنی یہ بانسری کی ایجاد تھی“.... آج الیکٹرک گٹار اور مشینی بانسری بھی موجود ہے۔
ہزاروں سال پہلے جب پتھر سے زندگی وابستہ تھی ، اس دور میں نظر یہ ضرورت کے تحت انسان نے اپنے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ وہیں وقت گزارنے اور خود کو خوشی فراہم کرنے کے لیے انسان نے یہ سب کچھ ایجاد کر ڈالا جو بعد میں ارتقائی مراحل طے کر کے جدت اختیار کر گیا....
یہ بات نامور محقق اور علم وادب سے وابستہ شخصیت جناب جواز جعفری نے حاضر ین کو بتائی تووہ ہمہ تن گوش ہوئے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جواز جعفری نے بتایا کہ سب سے پہلا گٹار ، وائلن یا سارنگی بھی ایسے ہی اتفاقاً ایجاد ہوئی جب فارغ بیٹھے سپاہی نے جنگوں میں استعمال ہونے والی تیر کمان کی کمان کی نہایت Tight تارکو چھیڑا تو اسے وہ آواز بھلی لگی ”ارے یہ کیا.... خوبصورت آواز !“انسان بولا....
اور پھر چھ سات تاروں کو ہاتھ سے، گز سے رگڑا یا چھیڑا گیا تو وہ ساز سامنے آیا جو سوئے انسانوں کو جگا دیتا ہے، بے آرام، بدسکونی کا شکار دماغوں کو لذت فراہم کرتا ہے....
بظاہر بات سادہ تھی لیکن دل میں اترتی چلی جارہی تھی اور میرے لیے تو معلومات افزا بھی تھی۔ جواز جعفری کی یہ گفتگو .... ہال میں موجود ستراسی لوگ، ساکت ہوئے اور جنہیں موسیقی سننے کا اشتیاق اس محفل میں کھینچ لایا، وہ موسیقی اور آلات موسیقی کے حوالے سے جواز جعفری کی سیر حاصل گفتگو سے متاثر ہوتے کھو سے گئے.... ان کی باتوں میں .... حلقہ¿ ارباب ذوق کا یہ اجلاس نامور ناول نگارعلی نواز شاہ، جناب غافر شہزاد، اعجاز رضوی اور روحِ رواں فرحت عباس شاہ کی کوششوں سے ہر جمعہ کی شام پاک ٹی ہاو¿س میں ہوتا ہے۔ محترمہ شاہدہ دلاور شاہ بھی ہر جمعہ کو ہونے والی اس تقریب میں لازمی پیش ہوتی ہیں۔ کل تو انھوں نے اپنی نہایت پراثر شاعری بھی پیش کی....
فرحت عباس شاہ چونکہ خود بھی اچھے گلوکار اور ترنم سے شاعری پڑھنے کے ماہر ہیں، اس لیے انھوں نے بھی ایک معلومات افزا گفتگو کی، موسیقی اورفن موسیقی کے حوالے سے، اساتذہ خاص طور پر موسیقی کے اساتذہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرحت عباس شاہ نے بتایا کہ موسیقی کے نامور گھرانے کے سینئر لوگ تو اپنے بھتیجوں ، بھانجھوں کو بھی سر، تال سے آشنائی فراہم نہیں کرتے تھے۔
پرویز پارس نے اس بات کو بڑھاتے ہوئے کہا ” بڑے موسیقی کے استاد تو اپنے شاگردوں ، دامادوں اور بھتیجوں کو گھر کی ’ڈیوڑھی‘ میں بٹھاتے کہ ان کی آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچے، جب وہ ریاض کرر ہے ہوتے تھے....“ مگر نصرت فتح علی خان نے راحت کو خود تیار کیا تھا۔
اس بات کو یا تنگ نظری کومزید اچھے انداز میں نامورگلوکار فہیم مظہر جو یورپ میں چودہ پندرہ سال فن موسیقی کے استادر ہے، نے بتایا ” جب کوئی شاگر دا چھا گانے لگتا یا سمجھ بوجھ کے قریب پہنچنے لگتاتواستاد کہتے کہ ’بیٹا اے راگ نہ چھیڑ لقویٰ ہو جائے گا‘ .... یعنی گانے سے منہ ٹیڑھا ہو جائے گا؟“
لیکن اس گفتگو کا خوبصورت رنگ اس وقت سامنے آیا جب استاد پرویز پارس نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے اس بات کا مثبت انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے بتایا .... ”موسیقی روح کی غذا ہی نہیں، روح موسیقی میں جذب ہو کر سیکھنے سمجھنے کا نام بھی ہے، جونو عمر ہارمونیم پکڑ تا ہے اسے شہرت کمانے کا شوق یا لالچ غزل گانا گانے کی خواہش تو ہو جاتی ہے لیکن موسیقی کے رازوں اور بنیادی قائدے قوانین میں مہارت پر وہ توجہ نہیں دیتا.... جب کہ بقول ثریا ملتانی سارنگی ایک لکڑی سے بنا ساز ہے اور انسان اس کے اسرار ورموز جانتا جا نتا خود لکڑی بن جا تا ہے۔“ وہی نام کماتا ہے جو ڈوب جاتا ہے۔
جب مجھے یہ بات ثریا ملتانی صاحبہ بتا رہی تھیں تو ان کا اشارہ استاد شریف الدین خاں کی طرف تھا جو اس وقت سارنگی بجانے لگے تھے اور سارنگی کے ایک دو بڑے استادوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ چونکہ صاحبان علم وہاں موجود تھے اس لیے موسیقی کے آلات سامنے پڑے تھے مگرحاضرین کی توجہ مدنظر رکھتے ہوئے فرحت عباس شاہ، فہیم مظہر، مجید ریاض، جواز جعفری اور استاد پرویز پارس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’موسیقی بطور فن‘ کے موضوع پر دل کھول کر گفتگو کی۔ علی نواز شاہ نے جب جواز جعفری خوبصورت، معلومات افزا گفتگو کر رہے تھے میرے کان میں کہا ”شاید موسیقی سننے کا وہ مزہ نہ آئے جو اس حوالے سے گفتگو سننے میں آرہا ہے“۔
میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ بڑی مدت بعد ایسے پڑھے لکھے، علم و فضل سے وابستہ لوگوں کے درمیان بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا.... ایک دفعہ میری پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر میں افتخار مجاز سے بات ہوئی تو میں نے گلہ کیا کہ ”آپ شاعری کے پروگرامز بہت کم کراتے ہیں؟“
افتخار مجاز بولے ”حافظ صاحب ! یہاں توں بڑا کہ میں بڑا، والے جھگڑوں سے ڈر لگتا ہے، سینئر جونیئر کی لڑائی اور درد سر مول لینے سے بہتر ہے بندہ چپ سادھ لے“۔
موسیقی کے حوالے سے ایک گلہ مجید ریاض صاحب نے بھی کیا جو میرے دل و دماغ میں بھی گردش کر رہا تھا.... وہ تھی آج کی موسیقی.... نہ شاعری پر توجہ نہ موسیقی پر توجہ نہ ہی گلوکار کی تربیت .... بقول فرح عباس شاہ اب تو سائنس کی مدد سے اچھی آواز، اچھا میوز ک نہ بھی ہو ٹیکنالوجی کے زور پر گانا تیار ہو جاتا ہے....
فہیم انور چغتائی فرماتے ہیں، چونکہ آج کل ان کا قیام لاہور کے رائل پارک میں ہے جو کہ موسیقی فلم، اداکاری اور دیگر شوبز سے وابستہ معاملات سے متعلقہ لاہور کی ایک بدنام بستی تھی.... ایک صحافی کی حیثیت سے فہیم انور چغتائی کا کام کھوج لگانا ہوتا ہے.... فہیم صاحب کہتے ہیں کہ لاہور کے رائل پارک میں آج بھی وہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر موجود ہیں جو پندرہ بیس لاکھ میں ’اچھی‘ فلم بنا ڈالتے ہیں کیونکہ انھوں نے بھارت میں بنی ان فلموں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو دو چار ارب روپے کے بجٹ سے بنتی ہیں.... آپ سمجھ تو گئے ہوں گے.... جو میں کہنا چاہتا ہوں؟
میں نے موسیقی کے ایک استاد سے جو عمر اور تنگدستی کے باعث سٹھیا چکے تھے پوچھا ”استاد جی! آج کل گانے والی لڑکیاں ملکہ موسیقی روشن آراءبیگم کیوں نہیں بن جاتیں؟“
”پتر .... اوہ ڈائیٹنگ جو کردیاں نیں!“
آپ سمجھ تو گئے ہوں گے؟ کہ راگ میں جب اونچا سر لگانا ہو تو صحت مند جسم، اچھی خوراک اور سانس کی پختگی بھی ضروری ہے۔ نصرت فتح علی خان کا موٹاپا آپ کے سامنے ہے .... کہ یہ سانس کی مضبوطی کاکام ہے....