اب تک بے شرمی کی بہت سی اقسام ایجاد ہوچکی ہیں۔ ان میں سے ایک کافی مشہور اور کارآمد ہے۔ اسے سوسائٹی کے ہر شعبے سے لے کر سیاست کے منافقت زار تک خوب آزمایا جارہا ہے۔ اِس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ اپنی نااہلیت، غلطی اور مکاری کو چھپانے کے لیے یہی الزامات اپنے مخالف پر لگا دیئے جائیں تاکہ وہ الزام لگانے والے کا چہرہ بے نقاب کرنے کے بجائے اپنے دفاع میں لگ جائے۔ اس کی بہترین مثال ہماری سیاست میں دیکھنے کو عموماً ملتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر سیاست دان ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے نہیں تھکتے کہ اُن کے مخالف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں یا اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں۔ اس طرح وہ اِن ڈائریکٹلی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان بیانات کی فہرست بنائی جائے توہر سیاست دان کا مخالف اُسے یہی طعنہ دیتا نظر آئے گا۔ اسی لیے عام پاکستانی کو اب اس سے غرض نہیں کہ کون اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے یا نہیں کیونکہ عوام کی اکثریت سیاست دانوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کو وطن کا وفادار سمجھتے ہیں۔ البتہ لوگ یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ اکثر سفید ماسک پہنے کالے کلوٹے چہرے والوں نے کب کب ایجنٹی کی؟ اقتدار حاصل کرنے کے لیے خوشامدی زبان لمبی سے لمبی کرنے کی ہماری سیاسی تاریخ بہت لمبی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی محلاتی سازشوں اور بیوروکریسی کی زورآزمائی میں خوشامد، ایجنٹی اور لابنگ ہی عموماً سب سے بڑے میرٹ تھے۔ مثلاً جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو ایک بے ضرر مقتدی وزیراعظم کی تلاش شروع ہوئی۔ اُن دنوں محمد علی بوگرہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اس وقت امریکہ نے چند ریلوے انجن پاکستان کو تحفے میں بھجوائے۔ جب گورنر جنرل غلام محمد نئے انجنوں کا افتتاح کرنے کے لیے ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہونے لگے تو محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے موجود سکیورٹی کی موٹرسائیکل کے سپاہی کو اتارا اور اس کی جگہ خود موٹرسائیکل چلاکر گورنر جنرل کی گاڑی کے پائلٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے ریلوے سٹیشن تک پہنچے۔ جونہی قافلہ ریلوے سٹیشن پہنچا تو محمد علی بوگرہ تیزی سے ریلوے انجن میں سوار ہوگئے۔ انہوں نے انجن ڈرائیور کی ٹوپی اتارکر خود پہن لی اور گورنر جنرل غلام محمد کے سامنے انجن چلانے کی نمائش کرنے لگے۔ نعیم احمد اپنی تحقیقی کتاب ’’پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم‘‘ میںاس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اپنی جگہ لیکن بوگرہ کی نامزدگی میں ان کی جو قابلیت ہوگی، سو ہوگی۔ سفیر سے وزیراعظم تک ان کی ترقی کے مندرجہ بالا پہلو بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی کمسنی اور نوخیزی کے اس عرصے سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہ مذہبی جماعتیں بھی بال وپر نکالنے لگیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی مگر پاکستان بننے کے بعد اب وہ جلسوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کے ذریعے پریشر ڈویلپ کرکے اقتدار کی حویلی میں کسی چھوٹے بڑے کمرے پر قبضے کی خواہش مند تھیں۔ مذکورہ مذہبی جماعتیں کس کے اشارے پر تھیں؟ یہ ایک کھلی کتاب ہے جسے اب اونچی آواز میں پڑھ لینا چاہئے لیکن اُس وقت یہ سب رسہ کشی ملک کو اپنے اپنے انداز میں اصل پاکستان بنانے کے نام پرکی جارہی تھی۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کو طاقت تقسیم کرنے کا مرکز مان کر اُس کے سیاسی طواف کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں باقاعدہ نظر آتا ہے۔ یہاں محققین یہ بات بھی کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دور سے پہلے 11برس کے دوران بھی ایوب خان کی سوچ کسی نہ کسی طرح اقتدار کو خفیہ طور پر دیکھتی رہی۔ اس بات کا احساس ایوب خان کی کتاب ’’فرینڈز، ناٹ ماسٹرز‘‘ پڑھ کر بھی ہوتاہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں اُن کی پوسٹنگ کے دوران اور بعدازاں مغربی پاکستان میں سیاست دان خود اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی کوشش کرتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ سے کھلم کھلا تعلق داری میں پہلا بڑا نام سکندر مرزا کا آتا ہے جنہوں نے ایوب خان کی مدد سے اقتدار حاصل کیا۔ یہ علیحدہ بات کہ سکندر مرزا کا پس منظر بھی فوجی ہی تھا۔ پاکستان کی سیاست میں بڑے ناموں میں سے ایک نام ذوالفقار علی بھٹو کاتھا جو پہلے سکندر مرزا اور پھر ایوب خان کی برخورداری کی بدولت ہی سیاست کی بڑی سکرین پر خوب چمکا۔ ایوب خان سے بھٹو کی عقیدت مندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر بلاتے تھے۔ یعنی ایوب خان اُن کے سیاسی باپ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1971ء سے لے کر اپنے اقتدار کے خاتمے تک بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو طاقتور نہ ہونے دیا اور سیاست دانوں کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے پر کڑی نگرانی رکھی لیکن اُن کی یہ غیرحقیقت پسندانہ منصوبہ بندی 5جولائی 1977ء کو خاک میں مل گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں سیاست دانوں کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی ایک منڈی سی لگ گئی۔ یہ تجربہ ایوب خان نے بھی کیا تھا لیکن ضیاء الحق اُن سے بہت زیادہ کامیاب رہے۔ ضیاء الحق کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ ایکسپریس ٹرین کی طرح چلتا ہی رہا۔ موجودہ سیاسی منظر میں اگر چیدہ چیدہ ناموں کولیں جن پر اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ میں آنکھ کھولنے کی بات کی جاتی ہے تو اُن میں ایک بزرگ نام ایس ایم ظفر کا ہے جو ایوب خان کی کابینہ میں کم عمر وزیر قانون تھے۔ جنرل یحییٰ کی کابینہ میں اہم وزیر جنرل عمر تھے جن کے دو بیٹے اسد عمر پی ٹی آئی کے رہنما اور زبیر عمر پی ایم ایل این کے رہنما ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی کا خانوادہ چوہدری ظہور الہٰی کی وجہ سے سیاست میں تھا لیکن ان دونوں شخصیات کو ضیاء الحق دور میں بہت نکھارا گیا۔ اس طرح کی فہرست لمبی ہے جو مختصر کالم میں آنہیں سکتی۔ یہاں نواز شریف کو کون بھول سکتا ہے مگر جاوید ہاشمی جو خود بھی ضیاء الحق کے تعویذ ہولڈر تھے انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ بینظیر بھٹو بھی جرنیلوں کے لیے چائے بناتی تھیں۔ البتہ عمران خان کے بارے میں کیا لکھا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسی دنیا کی بڑی ایجنسیاں اپنی خفیہ دستاویزات ایک خاص مدت کے بعد پبلک کردیتی ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دانوں کی اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ تعلقات بنانے کی دستاویزات بھی پبلک ہو جائیں تو سِول ملٹری ریلیشنز کے بجائے سیاست دان ملٹری ریلیشنز پر ایک تاریخی ریفرنس بُک لکھی جاسکتی ہے۔ اس سے پتا چل جائے گا کہ کس کس سیاست دان نے اسٹیبلشمنٹ سے مفاد اٹھانے کے بعد اپنا چہرہ چھپانے یعنی فیس سیونگ کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی۔