ہماری جمہوریت کا باوا آدم ہی نرالا ہے، جب وردی والے براجمان ہوتے ہیں،تو سیاسی جماعتوں میں اضطراب پایا جاتاہے،جونہی مقتدر طبقہ بیرکوں کا رخ کرتا ہے تو شادیانے بجائے جاتے ہیں لیکن جلد ہی ایسے حالات وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ پھر سے انھیں دعوت دینے میں عافیت سمجھی جاتی ہے، عالمی برادری کی خفت سے بچنے کے لئے اب نیا طریقہ نکال لیا گیا ہے، جس کی جانب وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اشارہ کیا ہے کہ انھیں بھی آفر کی گئی تھی مگر ان کے انکار کے بعد یہ قرعہ کپتان کے نام نکلا، جو انھوں نے خندہ پیشانی سے نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کے ایجنڈہ پر من وعن عمل کر کے”سعادت مند بچہ“ ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا، انکی اس ”حماقت“ نے قومی سطح پر ایسا سیاسی کلچر آباد کیا جس نے اخلاقی تہذیب کا جنازہ نکال دیا، انکے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہونے کی معاشی صور ت حال کا سارا ”ثواب“ انکو بھی جاتا ہے، جنہوں نے چار سال تک ان کے سر پر دست شفقت رکھا، کپتان اس احسان کے بدلے میں ان کا کورٹ مارشل کرنے کا مطالبہ یہ جانتے ہوئے بھی کر رہے ہیں کہ سرے سے اس طرح کی کوئی روایت یہاں موجود ہی نہیں۔
اس قوم نے چار سال تک صرف چور اور ڈاکو کی گردان سنی ہے،سیاسی انتقام کی ایسی سیریز کا آغاز کیا گیا جس کے ”آفٹر شاکس“ اب بھی محسوس کئے جارہے ہیں، توپوں کا رخ اب کپتان کی طرف ہے وہ وہی کاٹ رہے ہیں جو انھوں نے بویاتھا، جنہوں نے ان کے کندھے پر رکھ کر فائر کئے تھے وہ اس صورت حال کو ”انجوائے“ کر رہے ہیں، کپتان کی اپنی پارسائی کا بھانڈاتو توشہ خانہ کی پبلک شدہ رپورٹ نے بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے، اس کا کریڈ ٹ موجودہ وزیراعظم کو ضرور دینا چاہئے، اس سے قوم کو یہ تو پتہ چل گیا ہے،کس طرح مہذب انداز میں اعلیٰ سطح کی ”وارداتیں“ ڈالی جاتی ہیں، غیر ملکی سربراہان تو حکمرانوں اور افسران کو ایماندار سمجھ کر ہی تکریم دیتے رہے مگر ان کے اندر کاچھپا لالچ قیمتی اور نایاب چیزیں دیکھ کر باہر آتا رہا۔اس معاملہ میں محمود ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، انتہائی ارزاں نرخوں پر اشیاء گھر لے جانے والا سماج کا غریب نہیں بلکہ صاحب ثروت طبقہ ہے، ان کی اس چوری سے پوری قوم کا ”مورال“ گر گیا ہے، جسکی تلافی کے لئے
ایک مدت درکار ہے، ہماری قومی دستاویزات کی بے توقیری کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
سابقہ قومی انتخابات کے انعقاد اور اسکے مابعد اثرات پر جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا اسکی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے، کن کن نادیدہ ہاتھوں نے”سہولت کار“ کا فریضہ ادا کیا اب سب کچھ عیاں ہو چکا ہے۔یہی پہلے انتخابات تھے جس میں عوام نے کپتان کو”مسیحا“ سمجھ کر جوق در جوق ووٹ ڈالے مگر یہ تبدیلی بھی مصنوعی ثابت ہوئی، نیا خون پارٹی میں شامل کرنے کے بجائے دیگر پارٹیوں کے ناکام لوگ ”الیکیٹیبل“ کے نام پر جمع کئے گئے،بات بات پر یو ٹرن لیا جاتا رہا، مایوس کن سیاسی منظر نامہ اب نوشتہ دیوار ہے،اخلاقی طور پر کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ نفرت انگیز سیاست کا جو آغاز کپتان نے کیا ہے اس کے اثرات زائل ہونے میں وقت درکار ہے، تاہم پارٹیوں کی پالیسی سے انحرا ف کرنے والے چند نامور ان دنوں عوام اور میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں، ان میں ایک نام خواجہ سعد رفیق کا بھی ہے، سابق سرکار میں یہ بھی زیر عتاب رہے، انھیں بھی نیب زدہ قرار دیا گیا،البتہ یہ اچھے سیاسی ورکر ہی نہیں بہترین وزیر بھی ہیں، جب بھی پارٹی نے ان کو ذمہ داری دی انھوں نے بہ احسن خوبی نبھائی، انھوں نے ایک خبر بریک کی ہے کہ لندن میں مقیم مسلم لیگ کے سربراہ جلد ہمارے درمیان ہوں گے اور ایک انقلابی ایجنڈہ کا اعلان فرمائیں گے، خواجہ نے اس پروگرام کے خدو خال بتاتے ہوئے کہا،نیا نظام عدل جس میں جج حضرات کی تقرری کا طریقہ کار بدلنا کہ کسی جج کی الماری میں کوئی سکینڈل نہ ہوعوام کے لئے سستا اور فوری انصاف، انقلابی معاشی خاکہ، عام آدمی کو ہر قیمت پر ریلیف دینا،ٹیکس کا نیٹ ورک بڑھانا، حکومت کے سائزاور ریاستی اداروں کے اخراجات کوکم کرنا،عام آدمی کی جمہوریت لانا،کروڑ پتیوں کی موجودہ جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔
یہ جمہوریت ملک نہیں چلا سکتی، بقول خواجہ سعد رفیق الیکشن کمرشل ہو گیا ہے، عام ورکر کو سیاسی جماعتیں ٹکٹ دے ہی نہیں سکتیں، لہٰذا سیاسی جماعتوں کو جمہوری کلچر کو آباد کرناہوگا، پارٹی ورکرز کو فیصلے کرنے ہیں کون نمائندگی کریگا،سیاسی قیادتوں کو اپنا کا م کرنا پڑے گا، گراس روٹ لیول تک جماعتوں کو مضبوط کریں تو پھر کوئی نظریہ ضرورت جنم نہیں لے گا، اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگے گا،انھوں نے مزید کہا کہ آئین کی حکمرانی وقت کی آواز ہے لیکن یہ باتوں اور نعروں سے نہیں آئے گی، آزاد کشمیر اور تمام صوبوں کے عوام سے یکساں سلوک کرنا پڑے گا تب یہ ریاست مضبوط ہوگی۔ خواجہ جی نے یہ دھمکی بھی دی وہ اس نظام کے ساتھ نہیں چل سکتے اگر اسے جاری رکھا گیا تو پہلی یا دوسری آواز انکی ہوگی،پارٹی ورکرز سے خطاب میں البتہ یہ نہیں بتایا کہ کون یہ فریضہ انجام دے گا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ارب پتیوں کی جمہوریت ہی تمام مسائل کی جڑ ہے جس میں عام آدمی کا گذر بھی محال ہے ایک اچھا سیاسی ورکر ہی اچھا قائد بن سکتا ہے،مگر اسکو یہ موقع ملتا ہی کب ہے، قربانیاں دینے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں،ارب پتی پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر دولت کے بل بوتے پر براجمان ہو جاتا ہے وہ عام شہری کے بنیادی مسائل ہی سے نابلد ہوتا ہے اس لئے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت جیسے معاملات سے وہ بے خبر رہتا ہے۔
جس جماعت سے خواجہ جی تعلق رہا ہے ملک کے بڑے صوبہ پر اسکی حکومت چار دہائیوں سے رہی ہے مگر عام شہری تاحال تھانہ کچہری کی سیاست سے چھٹکارا نہیں پا سکا ہے، ریلیف کے لئے سادہ لوح عوام کو اب بھی بااثر افراد کے ڈیروں پر حاضری دینا پڑتی ہے اس رویہ ہی نے پورا جمہوری نظام یر غمال بنا رکھا ہے، ہماری خواہش ہے کہ کوئی نظریہ ضرورت جنم نہ لے،خواجہ کی آرزو کے مطابق پارٹی کا عام ورکر ہی فیصلہ کرے کہ کس کو نمائندگی کا حق ہے لیکن یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ خواجہ کی موجودگی میں شریف خاندان ہی کی بیٹی کو پارٹی صدارت دے دی گئی، اس پر اگر احتجاج ہوا بھی تو انتہائی دبے الفاظ میں ایسے میں کیونکر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ قائدین پارٹی کی باگ ڈور ورکرز کے ہاتھ میں دے دیں گے۔
سیاسی مایوسی سے نکلنے کے لئے سیاسی قیادت کو آگے بڑھ کر برملا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ارب پتیوں کی سیاست سے نجات کا اعلان کرنا پڑے گا اور ایسا طرز انتخاب متعارف کرانا ہو گا جس میں عام ورکر اپنی قیادت کا احتساب کر سکے اور اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچ سکے ورنہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مارشل لا ہی قوم کا مقدر قرار پائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انکی پارٹی قیادت خواجہ کے جذبات کا احترام کرتی ہے یا انھیں بغاوت کرنے پر اکساتی ہے۔