ری امیجنگ پاکستان نامی پلیٹ فارم سے متحرک ہونے والی مختلف سیاسی جماعتوں کے ناراض رہنماؤں کی سرگرمیوں سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ بظاہر ان رہنماؤں کا موقف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ کراچی میں ہونے والے حالیہ سیمینار میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جس طرح ملک چل رہا ہے ایسے نہیں چلے گا، آئین پر چلنا ہوگا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا عدلیہ اور فوج اپنا کام کرے تو سیاست میں میچورٹی آسکتی ہے، حکومت کا کام پولیس سٹیشن اور کورٹ چلانا ہے پیٹرول پمپس چلانا نہیں۔ پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم سری لنکا نہیں ہیں، ملک ڈیفالٹ ہوا تو یہاں لوگ آگ لگائیں گے۔ ان رہنماؤں کی باتوں کو بے وزن قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے۔ خالی مسائل کی نشاندہی اور روایتی جملے کہ سب کو مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے وغیرہ وغیرہ بے کار باتیں ہیں۔ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ منشور کی صورت میں مسائل کا ذکر کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ملک کو فوری طور پر درپیش سب سے سنگین چیلنج کو سب کے سامنے لاکر سامنا کرنے کے لیے نہ صرف ذہن سازی کی جائے بلکہ جنگی بنیادوں پر عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ایک انچ بھی آگے بڑھا نہیں جاسکتا۔ پاکستان کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور کارٹلز اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔ سیاستدان، بیورو کریسی اور میڈیا معاون کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس بندوق کی طاقت ہے، عدلیہ نے اپنے اختیارات اس حد تک بڑھا لیے کہ آئین ری رائٹ کرنے پر آگئی یعنی آئین میں تحریف کرنے کا کارنامہ سرانجام دے ڈالا۔ کارٹلز لینڈ مافیا کی صورت میں ہوں، آئل، ٹیکسٹائل، فارماسوٹیکل، تمباکو، گندم یا چینی یا کسی بھی اور شعبے کے حوالے سے ان پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہوچکا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کو ہی دیکھ لیں آج جب ملک میں ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے تو عین اسی وقت لوگوں نے گھروں میں دس ارب ڈالر ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران صرف ایک ذریعے سے دو ارب ڈالر
افغانستان سمگل کیے گئے۔ ان کارٹلز پر ہاتھ ڈالنا کسی بھی سیاسی حکومت کے بس کی بات نہیں رہا۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کا مخمصہ یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں اچھا بچہ ثابت کرنا چاہتا ہے اور اسی کے اقتدار میں کچھ حصہ حاصل کرنے کے لیے مرا جارہا ہے۔ دوسری طرف عدلیہ ہے کہ جس کے بارے میں انتہائی مضبوط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ اس کا جھکاؤ مکمل طور پر ایک فریق کی جانب ہے۔ مسلم لیگ ن نے عدلیہ کے بارے میں عجیب و غریب پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ ایک طرف چند مخصوص ججوں پر جانبداری اور بینچ فکسنگ کے الزامات لگا کر سخت تنقید کی جارہی ہے تو دوسری جانب وفاقی حکومت اور وزیر قانون ڈر ڈر کر ترلے کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی اتحاد میں یوں تو کئی جماعتیں شامل ہیں مگر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی بھرپور حصہ وصول کررہی ہیں۔ چند روز قبل بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں دھواں دھار خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں خود ایک بل پیش کریں گے جس سے تمام اعلیٰ عدلیہ سمیت تمام ججوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں لایا جائے مگر اس بڑھک کے بعد اس معاملے پر آج تک خاموشی ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی کے شعلہ بیان سربراہ مولانا فضل الرحمن صرف اتنا بیان جاری کرکے چپ ہوگئے کہ آج بھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، عمران خان کے لیے عدالتی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کے عمل میں پوری طرح ملوث ہیں۔ بہر حال ملکی اور سیاسی منظر نامے پر اس حوالے سے جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ خود کو غیر جانبدار ظاہر کررہی ہے۔ عدلیہ کا معاملہ کھلی کتاب ہے، اشرافیہ کی بد مزاج فیملیوں، ریٹائر افسروں اور عمرانی میڈیا نے مذکورہ تین پارٹیوں سمیت تمام سیاسی و دینی جماعتوں، غیر جانبدار عدلیہ، آزاد میڈیا کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ ان سے نمٹنا کتنا مشکل ہے اگر مسلم لیگ ن کی باقی لیڈر شپ بھی مریم نواز والا لب و لہجہ اختیار کرلے، اگر پیپلز پارٹی بھی متحرک ہو اور پارلیمنٹ میں بل لے آئے اور پریس کانفرنسوں اور سیمینار کے ذریعے مسلسل آواز اٹھائے، اگر مولانا فضل الرحمن روایتی گھن گرج کے ساتھ جلسے اور سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئینی و قانونی حدود سے باہر نکلنے والوں کو واضح پیغام دیں کہ ان کی من مانیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ یہ تین جماعتیں اپنی دیگر اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کر مربوط منصوبہ بندی کرکے عملی اقدامات کریں تو ملک کم ازکم اس گڑھے سے نکل سکتا ہے جس میں ہائبرڈ نظام کے تجربے کی ناکامی نے پھنسا رکھا ہے۔ اب بھی زبانی جمع خرچ سے کام چلانے کی کوشش کی گئی تو اگلی مرتبہ ان جماعتوں کے ساتھ ملک کو جو رگڑا لگے گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے خلاف مختلف عالمی لابیاں پوری طرح متحرک ہو چکی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سے واضح پیغامات آرہے ہیں۔ زلمے خیل زاد جیسے سازشی کردار نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کرکے بلی تھیلے سے باہر نکال دی ہے۔ پاکستان میں بیرونی و اندرونی سہولت کاروں کے ذریعے پورے ملک کو یرغمال بنانے کے جس منظم منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے۔ وہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا گیا تو سب سے زیادہ نقصان بائیس کروڑ عوام کا ہی ہوگا۔ ادارے، ادارے ہی ہوتے ہیں وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک محدود ہو کر آرام سے ایک طرف ہو جائیں گے۔