اس ملک میں نہ صرف آنے والوں کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں بلکہ جانے والوںکے جانے پربھی یہاںلڈوبانٹے جاتے ہیں ۔یہ منظرہم نے ایک دونہیں اس ملک میں بارباراپنی ان آنکھوں سے دیکھاہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے اقتدارکاتختہ الٹ کرجب سابق صدرپرویزمشرف ملک کے سیاہ وسفیدکے مالک بنے توہم نے نہ صرف ہزاروں ولاکھوں لوگوں کونوازشریف کی رخصتی پرمٹھائیاں بانٹتے ہوئے دیکھابلکہ پرویزمشرف کی آمدکی خوشی میں بھی ہزاروں ولاکھوں لوگوں کولڈوکھاتے ،جشن مناتے اورڈھول باجے بجاتے ہوئے دیکھا۔پھروہ منظربھی ہمیں اچھی طرح یادہے جب پرویزمشرف اقتدارسے رخصت ہوئے تووہی لوگ مٹھائیاں ہاتھ میں لئے دوسروں کے منہ میٹھاکرنے میں سب سے آگے اورپیش پیش رہے۔موجودہ وزیراعظم عمران خان کی آمدپرکیااس ملک میںکچھ کم مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔۔؟نئے پاکستان میں داخلے کے وقت بھی تواس ملک میں نہ صرف منوں کے حساب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں بلکہ جگہ جگہ بھنگڑے ڈال کرجشن پرجشن بھی منائے گئے۔وہی لوگ جوعمران خان کواقتدارملنے پرشکرانے کے نوافل ادا،مٹھائیاں تقسیم ،کالے بکرے ذبح اورجشن پرجشن منا تے رہے آج وہی لوگ ہاتھوں میں مٹھائیاں لیکرصرف اس وقت اورلمحے کاانتظارکررہے ہیں کہ کس وقت عمران خان اقتدارکی گلی سے باہر نکلیں تاکہ وہ یہ مٹھائیاں تقسیم کرکے لوگوں کے منہ میٹھاکرسکیں ۔آپ یقین کریں جس دن وزیراعظم عمران خان اقتدارکی گلی سے ذرہ بھی باہرنکلے اس دن اس ملک میں اتنی مٹھائیاں تقسیم ہونگی کہ اتنی مٹھائیاں ان کے آنے کی خوشی میں بھی تقسیم نہیں ہوئی ہونگی۔یہ ہماری عادت اوراس ملک کی روایت ہے کہ سیاسی طورپرہم جس کو بطور حکمران رب سے مانگتے ہیں پھررب کے حضوراسی منہ مانگے،،حکمران،، سے نجات کی دعائیں والتجائیں بھی کرتے ہیں۔وہ بھی توایک وقت تھاجب لوگ ہاتھ اٹھااٹھاکرعمران خان کی وزیراعظم بننے کی دعائیں کیاکرتے تھے لیکن اب ذرہ حالات دیکھیں۔آج وہی لوگ نہ صرف اپنے انہی ہاتھوں کواٹھاکربلکہ جھولیوں کوپھیلاپھیلاکراسی عمران خان سے نجات کی دعائیں مانگتے پھررہے ہیں۔انسان تو واقعی ایک حال میں خوش نہیں رہتالیکن ہم لوگ کسی حال میں بھی خوش ہونے والے نہیں۔ہماری اکثر زندگیاں ہی مٹھائیاں بانٹتے اورلڈوکھاتے ہوئے گزر گئیں ہیں۔اب کی باربھی اگروزیراعظم عمران
خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوگئی تو ایک بارپھرمٹھائیاں بانٹنے اورلڈوکھانے کاموقع ملنے سے ہماراکام توہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کا کیا ہو گا۔؟ سترسال سے مٹھائیاں بانٹنے اورلڈوکھانے وکھلانے کے باعث اس ملک کی جوحالت ہوئی ہے کیایہ حالات ایک مرتبہ پھرمٹھائیاں بانٹنے ولڈوکھانے وکھلانے سے بہتر ہو جائیں گے۔؟ پرویزمشرف نے جب نواز حکومت کاخاتمہ کرکے اقتدار سنبھالاتھاہم تواس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ میاں نوازشریف کے جانے سے اب حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن کیا۔۔؟ حالات پھر بہترہوئے۔؟پرویزمشرف کے بعد پھر پی پی پی کے اقتدارمیں آنے اورآخرمیں لیگی حکومت کے خاتمے پربھی ہم نے یہی باتیں کی تھیں لیکن کیانوازاورزرادری کے آنے وجانے سے بھی حالات کوئی بہترہوئے۔؟مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی۔یہ آنیاں جانیاں یہاں ہمیشہ لگی رہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہاں ہربدلتے سورج کے ساتھ حالات خراب پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئے۔ اب توموجودہ حالات کے سامنے خرابی والے الفاظ بھی بے معنی ہوکررہ گئے ہیں۔یہ حقیقت کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سابق حکمرانوں کے مقابلے میں عوام کوحدسے کچھ زیادہ مایوس کردیاہے اوراسی وجہ سے بیگانوں کو کیا۔؟اپنوں کوبھی اب ان سے کسی خیراورفلاح کی امیدوتوقع نہیں ۔اوروں کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ کل نہیں آج اس حکومت سے اس ملک وقوم کی جان چھوٹے لیکن سوال پھروہی پیدا ہو رہاہے کہ وزیراعظم عمران خان کے جانے کے بعد پھر کیا ہو گا۔؟ ایک منٹ کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوکرکپتان اقتدارسے الگ ہوچکے ہیں۔اب کیاہوگا۔؟پی ٹی آئی سے ہی کوئی بندہ وزیراعظم بنے گانہیں توزیادہ سے زیادہ پھر اپوزیشن کاکوئی وزیراعظم بن جائے گا۔ان دونوں صورتوں میں ملک وقوم کوکیافائدہ ہوگا۔؟خودسوچیئے جوکپتان ملک،قوم اورعوام کے لئے ساڑھے تین چار سالوں میں کچھ نہیں کرسکے ان کی جگہ اگران کے ہی کوئی کھلاڑی وزیراعظم بن گئے تووہ ایک سال میں کیاکرلیں گے۔؟رہی بات اپوزیشن کی تو جو اپوزیشن والے سب ملکربھی چارسالوں میں ایک عمران خان سے نمٹ نہیں سکے وہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، بھوک وافلاس سمیت ان بے تحاشا مسائل سے کیسے نمٹ لیں گے۔؟ملک کے حالات جس نہج پرپہنچ چکے ہیں ان حالات میں عوام کوفوری ریلیف شہباز،زرداری اورمولاناسمیت کسی کے بھی بس کی بات نہیں۔عوام کی کپتان اورکپتا ن کے کھلاڑیوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیںلوگ صرف اورصرف فوری ریلیف اوران بے تحاشامسائل سے جان خلاصی کے لئے عمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی جگہ شہبازشریف،آصف زرداری یا مولانا وزیراعظم بنے توان کے یہ دن آسان اورمسائل حل ہوجائیں گے لیکن ایساباالکل نہیں۔وزیراعظم عمران خان کے اقتدارسے جانے میں بہت سوں کے لئے دلی تسکین اورروحوں وکلیجوں کی ٹھنڈک جیسی ایک نہیں ہزار صفتیں و سہولتیں ضرور موجود ہیں لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ اس ملک کے ایک عام اورغریب آدمی کے لئے عمران خان کا جانا یا شہبازوزرداری میں سے کسی کاآنامحض ایک وقت کے لئے مٹھائیاں تقسیم کرنے یا لڈوکھانے وکھلانے کے شغل میلے سے زیادہ کچھ نہیں۔عمران خان کے اقتدارسے جانے اورکسی نئے مگرمچھ کے آنے پربھی لوگ منوں کے حساب سے مٹھائیاں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے منہ میٹھاکرلیں گے لیکن آپ یقین کریںان آنیوں جانیوں سے بھی محض ایک دودن بھنگڑے ڈالنے،جشن منانے اورڈھول کی تاپ پر رقص کرنے کے سواکسی غریب کوکچھ نہیں ملے گا۔ ایک دن لڈوکھانے اورجشن منانے کے بعدپھریہی غریبوں کے ہاتھ ہونگے اورنئے آنے والوں کی جانے کیلئے رب کے حضوردعائیں والتجائیں ہونگی۔ وزیراعظم عمران خان کاجاناتوٹھہرچکا،ان سے تواب جان چھوٹ ہی جائے گی آج نہیں توکل یہ بھی سابق حکمرانوں کی طرح انشاء اللہ چلے جائیں گے مگر کیاعوام کی دعائوں اورالتجائوں کاباب عمران خان کے جانے سے بندہوجائیگا۔؟نہیں ہرگزنہیں۔اس ملک کی سترسالہ تاریخ غریب عوام کی انہی دعائوں اورالتجائوں سے بھری پڑی ہے۔ان کی ایک سے جان چھوٹتی ہے تواسی طرح کی دوسری مصیبت ان کے گلے پڑنے کے لئے تیارہوتی ہے۔اب کی بار بھی ایساہی ہوگا۔اس ملک کے غریب عوام عمران خان سے جان خلاصی پردل کھول کرجشن ضرور منائیں، بھنگڑے بھی لازمی ڈالیں لیکن یہ اس خوش فہمی میں ہرگزنہ رہیں کہ کپتان کے جانے سے ان کے حالات کبھی بدل جائیں گے ۔کیونکہ اس ملک میں غریب پیداہی ان آنیوں جانیوں پرجشن منانے، بھنگڑے ڈالنے اورمٹھائیاں تقسیم کرنے کے لئے ہوئے ہیں۔کسی عمران کے جانے یاکسی کپتان کے آنے سے ان کوکوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اس لئے عوام نئی دعائوں اورالتجائوں کے لئے خود کو تیار رکھیں۔ کیونکہ ایک کھلاڑی سے جان چھوٹنے کے بعد ان کاایک اور کھلاڑی سے سامناہونے والا ہے۔