بھارت، رام مندر کی تعمیر میں بدعنوانی کا انکشاف، اپوزیشن کا انکوائری کا مطالبہ

07:03 PM, 17 Jun, 2021

اتر پردیش: ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کی جگہ عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین کی خریداری کے معاملے میں مندر ٹرسٹ کے کئی اہم ذمہ داران پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ 

سادھو سنتوں نے اس بدعنوانی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے وہیں سیاسی جماعتیں بھی میدان میں کود پڑی ہیں اور اعلی سطحی انکوائری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی میں نئے، نئے انکشافات بھی سامنے آ رہے ہیں اور تنازعہ مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاسی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔

بابری مسجد کے انہدام اور رام جنم بھومی کی تعمیر پر گہری نگاہ رکھنے والے بھارتی صحافی معصوم مراد آبادی جرمن میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ رام مندر شروع سے ہی دولت جمع کرنے اور سیاست چمکانے کا موضوع رہا ہے اور اس سے وابستہ لوگ یا تو سیاسی ہیں یا پھر وہ ہیں جو مذہب کی آڑ میں لوگوں کی جیب صاف کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ 

معصوم مراد آبادی کہتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ نوے کی دہائی میں جب سے رام مندر تحریک شروع ہوئی اسی وقت سے چندے میں ہیر پھیر کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم وی پی سنگھ حکومت میں انکم ٹیکس محکمے نے وشو ہندو پریشد کوضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورپ اور امریکا میں آباد بھارتیوں سے چندہ وصولنے پر ایک نوٹس جاری کیا تھا۔ اس نوٹس کے بعد کھلبلی مچ گئی تھی لیکن وی ایچ پی نے نوٹس کا جواب دینے کی بجائے اسے جاری کرنے والے محکمہ خزانہ کے افسر کو ہی عہدے سے برطرف کرا دیا۔ 

دہلی کی حکمراں عام آدمی پارٹی اور اترپردیش میں سابق حکمراں جماعت سماج وادی پارٹی نے رام مندر کی تعمیر کی منتظم 'رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ پر زمین کی خریداری کے نام پر کروڑوں روپے کے گھپلے کا الزام لگایا تھا جس کے بعد ملک میں کھلبلی مچ گئی۔

عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ اور سماج وادی پارٹی کے سابق سکریٹری تیج نارائن پانڈے نے الگ، الگ پریس کانفرنس میں دستاویزات پیش کر کے کہا کہ ایودھیا میں کم از کم سرکاری قیمت پانچ کروڑ 80 لاکھ روپے کی ایک زمین کو دو لوگوں نے دو کروڑ روپے میں خریدا اور اس کے صرف گیارہ منٹ بعد ہی دو کروڑ روپے کی اس زمین کو رام جنم بھومی ٹرسٹ نے اٹھارہ کروڑ روپے میں خرید لیا۔ یعنی زمین کی قیمت میں فی سیکنڈ تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی شرح سے اضافہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زمین کی پہلی خریداری کے جو دو گواہان تھے وہ ٹرسٹ کے لیے زمین کی خریداری میں بھی بطور گواہ انہی دونوں کے دستخط ہیں۔ لہذا یہ منی لانڈرنگ کا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ ٹرسٹ کے لیے سرکاری ای اسٹامپ پیپر شام پانچ بجکر گیارہ منٹ پر خریدے گئے جب کہ اس سے قبل زمین کی خریداری کے لیے خریدے گئے ای اسٹامپ پیپر پر شام پانچ بجکر 22 منٹ کا وقت درج ہے۔ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ آخر ٹرسٹ نے پہلے سے ہی اسٹامپ پیپر کیسے خرید لیے۔

خیال رہے کہ مودی نے گزشتہ برس خود رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ انہوں نے رام مندر ٹرسٹ کی تشکیل کر کے وی ایچ پی کے رہنما چمپت رائے کو اس کا جنرل سکریٹری بنایا تھا۔ ٹرسٹ کی تشکیل کے فوراً بعد ہی مندر کی تعمیر کے لیے ملک اور بیرون ملک سے چندے کے طور پر رقوم آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صرف چند دنوں میں ہی چار ہزار کروڑ روپے جمع ہو گئے۔

اطلاعات کے مطابق رام مندر کی تعمیر کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ٹرسٹ کے چیئرمین مہنت نرتیہ گوپال داس مطمئن نہیں ہیں۔ مہنت گوپال داس علیل ہیں اور ان کے قائم مقام کمل نین داس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس سے ٹرسٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کوئی اطلاع صدر کے ٹرسٹ کو کبھی نہیں دی گئی اور سارے فیصلے خود چمپت رائے ہی کر رہے ہیں۔

چمپت رائے بدعنوانی کے سوالات کا کوئی واضح جواب دینے سے گریز کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہم پر سو سال سے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ہم پر مہاتما گاندھی کے قتل کے بھی الزامات لگائے گئے لیکن ہم ان سب کی پروا نہیں کرتے۔

اس دوران سادھو سنتوں نے بھی چمپت رائے کے استعفی اور پورے معاملے کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ ہندوؤں کے ایک بڑے مذہبی رہنما سوامی نیکی مہاراج نے زمین کی خریداری کے اس گھپلے کو اب تک کا سب سے بڑا 'مذہبی گھپلا‘ قرار دیا۔

یہ تنازعہ سیاسی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے بعد اپوزیشن کانگریس پارٹی نے مندر کے لیے زمین کی خریداری پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔

کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے بی جے پی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ 'آستھا‘ (یقین) میں 'اوسر‘(موقع) تلاش کر کے کروڑوں بھارتیوں کے عقیدے پر حملہ ہے۔ رام مندر ٹرسٹ کی تشکیل چونکہ وزیر اعظم مودی نے کی ہے اس لیے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرسٹ کی پائی پائی کا حساب دیں۔ انہوں نے اس معاملے کی سپریم کورٹ کے کسی جج سے انکوائری کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

مزیدخبریں