جب بجلی کا بل دیکھ کر بیوی کی شکل بیوہ جیسی ہو جائے وہاں خود کشیاں نہیں ہوں گی تو کیاہوگا؟یہ بیوگی کیا ہے ؟عام آدمی تو یہ ہی سمجھے گا کہ جس عورت کاخاوند فوت ہوجائے اُسے بیوہ کہتے ہیں لیکن جب سماجی شعور بدلتا ہے تو الفا ظ اور اُس کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔جب عورت کو یقین ہو جائے کہ یہ کام میرے شوہر کے بس سے باہر ہے توبیوگی کا احساس اُسی وقت شروع ہوجاتا ہے۔آپ نے لاتعداد بار اپنی بیوی کی زبان سے کئی ایسی خواہشات کا اظہار سنا ہو گا جو خواہشات ’’بیگمات ‘‘کے در پر سجدہ ریزرہتی ہیں۔یقینا آپ نے بیوی سے بچوں کیلئے اُن ضروریات کا مرثیہ بھی سنا ہو گا جو’’ صاحبوں‘‘ کے بچوں کیلئے فضول ہوتی ہیں۔یہ بے چارگی اور بے بسی ،بیوگی نہیں تو کیا ہے؟مرد اگر عورت کی تمام جائز خواہشات پوری نہیں کرسکتا تو یاد رکھیں بیوگی یہاں سے شروع ہوجاتی ہے اور بیوی جب ماں بھی ہو توپھر معاملہ زیادہ سنگین صورت حال اختیار کرجاتا ہے۔کونسی ماں ہے جو یہ نہیں چاہتی کہ اُس کے بچوں کو زندگی کی تمام سہولتیں آسانی سے دستیاب ہو جائیں ؟جی وہی سہولتیں جو جاتی امراء ٗ دبئی محلات اور بنی گالہ کے مکین ٗ سول اورملٹری بیوروکریسی کے بچوں کو آسائشیں بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔بچوں کا تعلق اس اہم نقطہ سے نہیں ہوتا کہ کاتبِ تقدیر کون ہے؟ وہ تو ماں باپ کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیںاور ماں باپ کبھی رزق کے کسی فرشتے پر الزام عائد کردیتے ہیں اور کبھی حکمرانوں پر ۔۔۔لیکن یہ طے ہے کہ گھر میں بیوی کی حیثیت ورکنگ کلاس کی سی ہوتی ہے جس کو تمام دکھ اپنے سینے پر سہنا پڑتے ہیں۔اورورکنگ کلاس کبھی ہمیشہ ظلم نہیں سہتی ،یہ درس بھی ہمیں تاریخ نے ہی دیا ہے
بھلا اس بارے میں دو رائے کیسے ہو سکتی ہیں کہ انسان کی طبیعی زندگی کا مدار ہی روٹی پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظامِ خداوندی میںروٹی کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام جب تعمیر کعبہ ۔۔یعنی توحید کا اولین مرکز کی عمارت تعمیر کرتے ہیں ۔۔۔تو اس کے بعد سب سے پہلی آرزو جو دعا بن کر اُن کے لبوں پر آتی ہے :’’ اے میرے رب تو اس بستی کو پُرامن بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو ہر طرح کا رزق مہیا کردے ‘‘۔قرآ ن کریم کے متعدد مقامات میں رزق ِفروزاں کو خدا کا انعام اور بھو ک کو اس کا عذاب قرار دیا گیا ہے ۔ارشاد ِ باری تعالی ہے کہ جو ہمارے ذکر(قوانین )سے اغراض برتے گا اُس کی روزی تنگ ہو جائے گی اور جس کی یہاں روزی تنگ ہو گی اسے قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ اُن پر آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے ۔رب کعبہ کے اسی اعلانِ عظیم کی تشریح کرتے ہوئے نبی
برحقؐ نے فرمایا تھا کہ ’’جس بستی میں ایک شخص نے بھی اس طرح صبح کی کہ وہ رات بھر بھوکا رہا خدا نے اُس پر سے اپنی حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا۔بھوکوں کے اس غیر محفوظ ملک کی حفاظت کون کرسکتا ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری فرمان ِ رسولؐ کے مطابق اللہ نے اٹھا لی ہے اور بھوک کا عالم آپ کے سامنے ہونے والی خودکشیوں کی صورت میں موجود ہے۔یہ سب کیا ہے؟وہی عدمِ مساوات جس کے خاتمے کیلئے اسلام جیسا اسلامی مذہب نازل ہوا لیکن ہم نے اسلام آباد بسا لیا اور انسان سے وابستہ سماجی دکھوں سے دور ہوتے گئے ۔
اگر کسی بستی پر بھوک کا دیو شب خون مارتا تو اس ساری بستی کو بھوکا رہنا چاہیے تھا نہ کہ چند افراد اپنے پالتو جانوروںسمیت پیٹ بھر کر سوئیں اوردوسرے بھوک سے رات کاٹیں ،یہ کوئی بھی نظا م ہو سکتا ہے البتہ محمد ؐ کا دین ہر گز نہیں ہے ۔اورجو معاشرہ اسلامی ہونے کا دعویدار ہونے کے باوجود اپنے معاشی نظام کو معاشی ِ عدم مساوات کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کرے اللہ اُس کی حفاظت کا ذمہ ہرگز نہیں لے گا ۔اللہ تو اُس معاشرے کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے جو اُسکے قوانین کے مطابق متشکل ہوں۔وہ نظریہء زندگی ، نظامِ حیات،وہ تہذیب، وہ تمدن باقی نہیں رہ سکتاجس میںدو انسانوں کی بھوک میںطبقاتی بنیادوں پر فرق کیا جائے ۔بھوکے انسان کیلئے بہار کی رنگینوں اور کیف آفرینیوں میں کیا دلکشی ہو سکتی ہے ؟ اُسے ہر گھر میں جلتے ہوئے برقی قمقموں،سڑکوں کا بچھاہوا جال، بڑے بڑے گرانڈیل کارخانوں ،سربفلک عمارتوں ، فضا میں پرفشاں طیاروں، زمین پر سبک خرام موٹروں سے کیارغبت ہوسکتی ہے ؟ وہ اس سب سے اختلاف نہیں کرے گا لیکن اُس کا سب سے پہلے مسئلہ روٹی ہے ۔شیح سعدی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بھوکا آدمی نماز کی حالت میں بھی یہی سوچتا ہے کہ صبح میرے بچوں کوروٹی کہاں سے ملے گی؟ جب کہ بات تو اس سے بھی بہت آگے نکل جاتی ہے ۔دورِ جاہلیت میں عرب میں ایک قبیلہ بنو حنفیہ تھا جس نے آٹے کا بت بنا رکھا تھا اوراِس کی پرستش کرتے تھالیکن جب عرب میں قحط پڑا تو وہ اپنے اُس ’’خدا‘‘ کو بھی کھا گئے جس کی وہ شب و روز پرستش کرتے تھے اور ایک قبیلہ بنو حنفیہ پر ہی بات کہاں ختم ہوتی ہے ہر بھوکا اُس ’’خدا‘‘ کو کھا جاتا ہے جو اُسے روٹی نہیںدیتا۔روس کے انقلابیوں نے بھی اُسی ’’خدا‘‘ کونگل لیا تھا جس کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ اُن کی مفلسی اور مفلوک الحالی کا ذمہ دار ہے۔جس شخص کے پاس اپنے بچے کی سکول فیس جمع کرانے کیلئے پیسے نہ ہوں اُس کے نزدیک اس خوشخبری کی کیا اوقات ہے کہ شہر میں دس ہزار سکول اوردو ہزار کالج قائم کردئیے گئے ہیں ۔جس کے پاس دم توڑتے بچے کے حلق میں ٹپکانے کیلئے دودھ کے چند قطرے نہیں اُسے شہر میں قائم ہونے والے دودھ کے لاتعداد پلانٹ اورجدید ٹیکنالوجی سے کیا لینا ۔قوم کی ترقی کا معیار فقط ایک ہے کہ ہر فرد کے حصے میں کیا آتا ہے نہ کہ چند انسانوں کو اس میں کیا حاصل ہوگیااورکیا حاصل ہوتا رہے گا۔جنت رب کائنات کا انسان سے سب سے بڑا وعدہ ہے مگر کیا کبھی ہم نے جنت کی بنیادی خصو صیت کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔اُس حسن کو جاننا چاہا ہے جس کیلئے لوگ جان دینے اور جان لینے سے دریغ نہیں کرتے ۔اُس کی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ اس میںجس قدر سامانِ آسائش و آرائش ہے ہر ایک کے لیے یکسا ں اورمفت ہے ۔جنت کی نہریں اور باغات کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں مگر افسوس ہم اُس جنت کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کیلئے تیارہیںلیکن زمین کو بہشت بنانے کیلئے طبقات اور ذاتی ملکیت کا خاتمہ کرنے کے بجائے طبقاتی نظام کے’’ خداوندوں‘‘کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بدترین مشرکانہ معاشی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں۔جن شہزادوں سے ہم دوستیوں کے دعویدار ہیں انہیں کی دولت نے ہمیں خود کشیوں پرمجبور کیا ہے ہم انہیں کے نعرے لگا کر خدا ، رسولؐ اور قوم سب کے سامنے شرمسار ہو رہے ہیں لیکن تقدیر کے قاضی کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جو معاشرہ اتنا پست ہوجائے کہ وہاں تعظیم کا معیار بھی طبقاتی ہوجائے اُس کی تباہی لوح ِ محفوظ پر لکھ دی جاتی ہے۔امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی بربادی کی جو وجوہات ہم دوسروں کو بتاتے ہیں کہ وہ دوسری اقوام کو کمتر سمجھتے ہیں،ظالم ہیں ،اس لئے خدا انہیں برباد کردے گالیکن ہم اپنے گریبانوں میں کیوں نہیں جھانکتے کہ خداکے اسی قانون کی نافرمانی کے مرتکب ہم خود بھی ہو رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے چونچلے اپنی جگہوں پر لیکن ہم براق کی رفتار سے اُس سمت روانہ ہوچکے ہیں جہاں بنوحنفیہ کی طرح لوگ اُس’’ خدا‘‘ کو نگلنے والے ہیں جو صرف سرمایہ دار اورجاگیردار کا پیدا کردہ ہے ۔جو انہیں ذاتی ملکیت اورظلم کی اجازت دیتا ہے ۔جس کے حکم سے وہ اپنے گوداموں میں اناج جمع کر کے مخلوق باری تعالیٰ کو بدترین غلامی اور بھوک میں مبتلا کردیتے ہیں ۔اللہ رب العزت کا حقیقی معاشی نظام تو یہی ہے کہ:’’ اے نبی یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو ان سے کہہ دو جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے‘‘ ۔اب جن کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے وہ تو اللہ رب العزت کے نافرمان ہیں بھلا اُن سے دوستی کیسی اوراُن کی حکمرانی کیسی …؟زمین اللہ رب العزت کی ہے اور اس سے پیدا ہونے والا نفع تمام انسانوں کا، بس یہی وہ نظام معیشت ہے جس کی درستی کے لئے انبیاء کرام تشریف لائے اوراللہ کی توحید کا درس دے کر فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار اور متقی ہے ۔مگرجس معاشرے میں بجلی کا بل دیکھ کر بیوی کی شکل بیوہ جیسی ہو جائے وہاں زندگی کیسی اورموت کیا۔