سویلینز ملٹری ٹرائل کیس : پارلیمنٹ پر حملہ ہو تو اس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں ہوتا ؟ سپریم کورٹ آئینی بینچ

سویلینز ملٹری ٹرائل کیس : پارلیمنٹ پر حملہ ہو تو اس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں ہوتا ؟ سپریم کورٹ آئینی بینچ

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے گئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ "کیا پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی؟" انہوں نے اس بات پر سوال اٹھایا کہ اگر پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں ہوتا، جبکہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے۔

 کیس کی سماعت  جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کی جانب سے کی گئی ہے۔ بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ وزارت دفاع کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے، ان کا کہنا تھا کہ  آرمی ایکٹ اور اس کے ضوابط میں سویلینز کے لیے مکمل فیئر ٹرائل کا انتظام موجود ہے۔

سماعت کے دوران، جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کس فوجی عدالت کے فیصلے سے متفق ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وہ کسی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ 21 ویں ترمیم میں جس طرح فوجی عدالتوں کو تسلیم کیا گیا تھا، اس کی تفصیلات بھی سامنے آئیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مختلف شہروں میں ایک ہی وقت میں حملے ہوئے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جرم سنگین نوعیت کا تھا، تاہم سوال یہ ہے کہ ان واقعات کا ٹرائل کہاں پر ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ "پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی؟" انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے۔

 عدالت نے اس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے اور اس دوران تمام دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مصنف کے بارے میں