اسلام آباد (جہانزیب عباسی) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہے کہ سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نا ہی اس کو فیصلوں کو مانتے ہیں ۔ عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھے اس کارروائی کو کیا چیلنج کر سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آ گیا ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اخبارات میں خبریں چھپی ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ واپس جا رہی ہے ۔اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟ وزیر اعظم کے وکیل سے پوچھا اپنے موکل سے پوچھیں کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟
وکیل وزیر اعظم مخدوم علی خان نے کہا کہ بغیر ہدایات لیے عدالت میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے ۔پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کر سکتی ہے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے ۔نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے ۔امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی ۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ۔ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو ۔نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کر دیں۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جا رہی ؟وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی۔ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ۔