پنجاب اسمبلی تحلیل ہو چکی، خیبر پختونخوا اسمبلی بھی آج تحلیل ہو جائے گی، خان صاحب اس وقت فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت دفاعی انداز میں حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ دونوں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد جنرل الیکشن کے جلد ہونے کی اُمید بھی کی جا رہی ہے، مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مدت پوری کرے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ اس وقت اُن کی مقبولیت کا جو گراف ہے وہ مستقبل میں کم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے وہ جیسے تیسے کر کے اقتدار لینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کو یقین ہے کہ نہ صرف خیبر پختونخوا پر ان کا پرچم لہراتا رہے گا بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی ان کی بلا شرکت غیرے اکثریت ہو گی اور یوں وہ دونوں صوبوں میں دندناتے پھریں گے۔ وفاقی حکومت کا جینا حرام کر دیں گے اور اُسے انتخابی تالاب میں غوطہ لگانا پڑے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور اُس کے ہم نوا اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ یقین د لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا، وہ اُنہیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ اپنی ٹوکری میں ڈال لیں گے۔ پنجاب پر اُن کا پھریرا لہرانے لگے گا اور خیبر پختونخوا میں بھی مولانا فضل الرحمن وغیرہ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کو ناکوں چنے جبوا دیں گے۔
یہ ”سادہ“ سی صورتحال ہے اس وقت وطن عزیز کی! لہٰذا جو بھی ہو بادیئ النظر میں ملک کے لیے بہتر ہونا چاہیے، لیکن پنجاب کی موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائیں تو اس وقت دستور کے مطابق گورنر کو وزیراعلیٰ کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری روکنے کا اختیار نہیں۔ جبکہ آئین کے مطابق اگر گورنر 48 گھنٹے کے اندر اس سمری پر دستخط نہ کریں تو اسمبلی کو تحلیل تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے گزشتہ جمعرات کی شب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوائی تھی۔ جو ہفتے کی رات 48 گھنٹے پورے ہوتے ہی اسمبلی کی تحلیل کے بعد گورنر پنجاب نے سابقہ اسمبلی میں قائدِ ایوان یعنی وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز
کو مراسلے بھی ارسال کر دیے۔
مراسلے میں ان دونوں رہنماؤں کو باہم مشاورت کے ساتھ نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ایک متفقہ نام تجویز کرنے کا کہا گیا ہے۔ اگر یہ دونوں رہنما اتفاقِ رائے سے ایک نام کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ نام گورنر پنجاب کو بھجوا دیا جائے گا جنہیں وہ نگران وزیر اعلیٰ مقرر کر دیں گے۔ جبکہ تادم تحریر پرویز الٰہی اور عمران خان کی ملاقات میں وزارت اعلیٰ کے لیے تین نام احمد نواز سکھیرا، نصیر خان اور ناصر سعید کھوسہ سامنے آئے ہیں۔ خیر پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل ہوتے ہی صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے تاہم نگران وزیراعلیٰ کی تقرری تک سابقہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی وزیرِاعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر سابق قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف نگران وزیراعلیٰ کے لیے کسی بھی نام پر متفق نہیں ہوتے تو کیا ہو گا؟
اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں اور ان کے درمیان ان نام پر اتفاق ہو جاتا ہے تو وہ یہ متفقہ طور پر طے کیا گیا نام گورنر پنجاب کو بھجوا دیں گے۔ اس پر گورنر کا کردار صرف اتنا ہی ہے کہ وہ اس متفقہ امیدوار کی بطور نگران وزیراعلیٰ تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے۔ نگران وزیرِاعلیٰ اپنے عہدے کا حلف لینے کے بعد اپنی نگران کابینہ کا انتخاب کریں گے جو صوبائی حکومت کے معاملات کو آگے بڑھائے گی جس میں الیکشن کمیشن کی معاونت سے صوبے میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا بھی شامل ہیں۔
تاہم تین دن کے اندر قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف مشاورت کرنے اور نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے کسی ایک نام پر متفق ہونے میں کامیاب نہیں ہوتے تو نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ سابق صوبائی اسمبلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ تحلیل ہونے والی اسمبلی کے سپیکر یہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے جو کل چھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی برابر نمائندگی شامل ہو گی یعنی دونوں اطراف سے تین تین ممبران کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ اس پارلیمانی کمیٹی میں دونوں طرف سے دو دو نام نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے تجویز کیے جائیں گے اور کمیٹی تین دن کے اندر کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی۔ یہ نام تعیناتی کے لیے گورنر پنجاب کو بھجوا دیا جائے گا۔
تاہم اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تجویز کردہ چار ناموں میں سے کسی ایک نام پر تین روز میں اتفاق نہیں پیدا کر پاتی تو نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چلا جائے گا۔ دو روز کے اندر الیکشن کمیشن پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے دیے گئے چار ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیرِاعلیٰ منتخب کر دے گا۔ نگران وزیرِاعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ کا انتخاب کرے گا اور الیکشن کمیشن پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے عمل کو آگے بڑھائے گا۔
یعنی حالات و واقعات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام عمل لمحہ بہ لمحہ ہوں گے۔ کیوں کہ ابھی تک کسی طرف سے بھی کسی قسم کا کوئی اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آیا۔ لہٰذا اگر الیکشن کی بات کی جائے تو پاکستان کے آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد تین سے سات دن کے اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان نئے انتخابات کے لیے شیڈول جاری کرے گا۔ صوبائی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل اگر اسے ختم کر دیا جائے تو آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو 90 روز کے اندر صوبے میں نئے انتخابات کرانا لازم ہوتا ہے۔
بہرکیف انتخاب آئینی طور پر بھی 2023 میں ہونا ہیں۔ اس لیے اگر عام انتخابات کی طرف نہ جایا جائے، تحلیل ہو جانے کی صورت میں ضمنی الیکشن کرائے جائیں تو بہت سی وجوہات کی بنا پر کل 516 نشستوں پر انتخاب بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔ اس لیے ہر حال میں جنرل الیکشن کی طرف جانا ہو گا۔ لہٰذا ہمیں اس وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ الیکشن ضمنی ہوں گے یا جنرل۔ ہمیں صرف اس چیز کو اہم بنانا ہے کہ شفاف الیکشن کیسے اور کب ہوں گے۔ ورنہ ہم اسی بھنور میں پھنسے رہیں گے اور عوام کا پُرسان حال کوئی نہیں ہو گا!
پنجاب، کے پی کے اسمبلی اور جنرل الیکشن کی شنید!
10:58 AM, 17 Jan, 2023