فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ، انسٹا گرام اور دیگر ایجادات کرنے والوں نے دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ موبائل ٹوئٹر ایک عجوبہ تھا جو بہرحال ایٹم بم کے بعد سب سے بڑی ایجاد ہے اور اگر اس کا استعمال مثبت ہو تو پھر بہترین ایجاد۔ کمپیوٹر، سی سی ٹی وی کیمرے ایجاد کرنے والوں نے کمال کر دیا۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے پوری دنیا اس کی تاریخ، تمام علوم حتیٰ کہ معلومات موبائل کی صورت میں ہمارے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ناخواندہ ترین بیروزگار کے ہاتھ میں دے دی ہے، انہوں نے اپنے پاس کیا رکھا ہو گا۔ مجھے یاد ہے آصف علی زرداری کا ایک اینکر انٹرویو لے رہا تھا تو اس نے کہا کہ آپ بات نہیں کرتے کسی سے زیادہ ملتے جلتے نہیں کیا وجہ ہے۔ زرداری صاحب نے جواب دیا، کیا بات کریں؟ جب سیٹلائٹ ریکارڈ کر رہا ہو۔ گویا اب کسی کی حرکیات، معمولات چھپے نہیں رہ گئے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دنیا کو آپس میں ملا دیا، جوڑ دیا۔ مارک زکر برگ، جیک ڈورسی شکریہ، فیس بک نے ان لوگوں سے ملاقات کرا دی جن سے امید نہ تھی۔ 1987 جب میں امریکہ میں تھا، فیاض خان پشاور کے ایک خوبصورت گاؤں کا خوبصورت نوجوان میرا دوست تھا، بہت دل والا، باوفا، باوقار، خوبصورت، خوش لباس، خوش اخلاق، خوش گفتار فیاض خان جو میر مرتضیٰ بھٹو کے دوست تھے۔ میر صاحب اس کو گریٹ خان کہہ کر پکارتے، جب 1988 میں، میں پاکستان آ گیا، 91 میں فیاض خان بھی آ گئے اور پھر نہ جانے کہاں چلے گئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت پر جب ان کی تدفین جاری تھی تو گریٹ فیاض خان سے دوستوں نے کہا کہ میر صاحب کا دیدار کر لو۔ فیاض خان صاحب بولے، نہیں آنکھوں میں میر صاحب کا وہی چہرہ رکھنا چاہتا ہوں جو اس سے پہلے تھا۔ آخری ملاقات کا چہرہ نہ کہ آخری دیدار کا چہرہ۔ فیس بک نے ملاقات کرا دی، پھر فون نمبر کا تبادلہ ہوا، فون پر بات ہوئی وٹس ایپ پر۔ وہ 1991 سے جاپان میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایف بی آر کے افسران میں بہت دوست اور رشتہ دار ہیں۔ گریٹ فیاض ONO سے جلد ملاقات ہو گی۔ بہرحال زکر برگ شکریہ، اسی طرح دیگر معاملات میں بھی دنیا میں ترقی ہو گئی۔ مثبت کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی چلتے ہیں، اسلحہ سازی کا خوفناک ارتقا ہوا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پرانا مقولہ ہے۔ یہ آج بھی ہے، اقوام متحدہ میں ویٹو پاور رکھنے والے، آئی ایم ایف میں انوسٹمنٹ کرنے والے ممالک، اسلحہ اور سائنس کی دوڑ میں آگے ممالک کے ہاتھ میں آج کی لاٹھی ہے۔ انتہائی تبدیلی کے باوجود آج کی لاٹھی کا تعین کرنا ہو گا مگر دستور وہی پرانا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ میں بہت پرانے تیر تلوار کے زمانے کی بات پر نہیں جاتا، برصغیر کا نقشہ بدلنے سے چند دہائیاں پہلے اور آج کے دور کی بات ہو گی۔ پہلے لوگوں کی لڑائیاں جھگڑے ڈانگ سوٹا، چھرا، بلم، تیر تلوار سے ہوتیں، پھر پستول بندوق نکل آئی۔ گوجرانوالہ میں تقریباً 65 سال پہلے اللہ جوایا پہلوان جو کہ ماجھو پہلوان کا والد تھا، کی نصیر پہلوان عرف نصیریا پہلوان، ابراہیم پہلوان خلیفہ ابرو سے دشمنیاں تھیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بیساکھی کے میلے پر ڈانگ بازی کا مقابلہ ہوتا، ایک سکھ بھارت سے ہر سال آتا اور جوایا پہلوان سے شکست کھا لیتا۔ 25/25 لوگوں سے جن میں سکھ اکثریت ہوتے لڑائی میں تن تنہا فتح مند ہوتے۔ یہی صورت حال خلیفہ ابراہیم ابرو کی تھی جو ایک صوم و صلوٰۃ کے پابند، نیک اور آہنی انسان تھے۔ ایک سال بیساکھی کے میلے میں جوایا پہلوان ایمن آباد گوجرانوالہ نہ آیا۔ تو اس سال سکھ جوایا پہلوان سے لڑنے نوشہرہ روڈ پہنچ گئے۔ جوایا پہلوان کا پتہ پوچھا جو ایک چوک میں منجھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ سکھ نے جوایا پہلوان کو للکارا اور دنوں میں اسی چوک میں ڈانگ بازی ہوئی جس میں یہ طے تھا کہ سوٹا ڈانڈا سر پر نہیں مارا کرتے تھے۔ کندھوں، بازوؤں اور ہڈی کے علاوہ یہ مقابلہ ہوتا، جوایا پہلوان نے سکھ کو گرا لیا۔ اچانک اس کی والدہ نمودار ہوئی اور جوایا پہلوان کو بیٹا بنایا، گانا باندھا اور بتایا کہ یہ سارا سال کسرت کرتا ہے مگر تم سے 12 سال سے شکست کھا رہا ہے۔
اس کے بعد لاہور میں جمی، شاہیا پہلوان دا، اچھا شوکر والا، جگا گجر اور قصائی، ریاض گجر کی سیریز چلی۔ مظفر، باؤ اعجاز پھر یہ دشمنیاں امیر لوگوں میں آ گئیں جن میں شیخ اصغر اور میاں معراج گروپ آ گئے، یہ کھاتے پیتے لوگ تھے مگر دشمنیاں بڑھتی چلی گئیں۔ گوجوانوالہ میں بلو گھنٹہ گھریا، بالا پیرے دا، سردار محمد داری پہلوان، سائیں پہلوان، اکرو پہلوان، امین عرف مینوں پہلوان سب عزت دار لوگ تھے مگر دشمن داری نے کھا لیے۔ سیالکوٹ گروپ میں اجرتی قاتلوں کی تعداد زیادہ تھی۔ مجھے یاد ہے سمیع اللہ بٹ میرے پاس پپو برف والا، کالا دائی والا کو لے کر آئے، میں مرزا امتیاز بیگ بھولی (وزیر آباد) اور گوگی آرائیں کا وکیل تھا۔ یہ سب لوگ اپنے زمانے میں اپنے اپنے علاقے کے محافظ جانے جاتے تھے۔آج کا کالم ان پہلوانوں کی نذر ہو گیا۔ گوجرانوالہ کے جن پہلوانوں کا لوگوں نے صرف نام سنا ہوا ہے، میں نے ان سب کو اپنے گھر اپنے والد اور بھائی پاء جی معظم بٹ کے حلقہ یاراں میں دیکھا۔ یہ لوگ کوئی غنڈے یا بدمعاش نہیں تھے یہ بہادر لوگوں کی خاطر میدان میں اتر آئے اور اپنی زندگیاں قربان کر گئے۔
بات چلی تھی ٹوئٹر سے جو آج کی سٹین گن ہے۔ گوجرانوالہ پہلی بار سٹین گن ایک بے نام پہلوان نے چلائی تھی جوایا پہلوان کوئی 50 سال کا ہو گا۔ پہلوان بیٹھا ہوا تھا، ارد گرد اس کے ساتھی یا چاہنے والے تھے، نامعلوم رنگ باز پہلوان نے کہا پہلوان جی اب مکا، ٹکر، ڈانگ سوٹا، تلوار پستول کا زمانہ نہیں، اب تو سٹین گن کا دور ہے جو ایک برسٹ میں 30 گولیاں نکالتی ہے اور پہلوان کو نزدیک نہیں آنے دیتی۔ جوایا پہلوان سمجھ گیا کہ یہ بات وہ اسے کہہ رہا ہے۔ اس نے کم از کم ایک ہزار گالی دی اور کہا کہ چلاؤ سٹین گن، سینے میں دل ہو گا تو چلاؤ گے، رنگ باز تھا کہ کاٹو تو خون نہ نکلے۔ یہ بے نام ٹوئٹر اس پر گالیاں، جعلی بڑھکیں، عورتوں کے نام سے ٹوئٹر کسی کو سیاسی پہلوان نہیں بنا سکتا۔ لمبی جیل کاٹنے والا زرداری اور ٹکرا جانے کے جرم میں تین حکومتیں گنوانے والا نوازشریف ٹوئٹر کے لیڈر عمران نیازی سے وہی کہنے والے ہیں جو جوایا پہلوان نے رنگ باز سے کہا تھا کہ یہ گھوڑا اور یہ میدان آؤ ذرا مقابلے میں۔۔۔