شبلی نشیب اگر احمد فراز کا بیٹا نہ ہوتا تو اُسے اسلام آباد دھرنے میں کنٹینر کے پاس بھی نہ جانے دیا جاتا چہ جائیکہ وہ پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے۔ موروثیت خاندانی تسلسل بھی ہوتا ہے اور شجروں کا تسلسل بھی! احمد فراز بڑے آدمی تھے لیکن ہر بڑے آدمی کا بیٹا بڑا آدمی ہو گا یہ دنیا کی کس کتاب میں لکھا ہے؟ آپ شاعر مشرق سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے پوتوں اور نواسوں کو دیکھ کر ہی اندازہ کر سکتے ہیں حالانکہ یہ فیصلہ اُن کے بیٹے کو دیکھ کر بھی ہو سکتا تھا لیکن وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ بہرحال یہ ”بڑے لوگوں“ کے فیصلے ہیں جنہوں نے ”چھوٹے لوگوں“ کی جنگ لڑنا ہوتی ہے۔ میں کبھی کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ویسے ہی سوچے جیسا کہ میں سوچتا ہوں اور نہ ہی اسے مناسب سمجھتا ہوں کہ کوئی مجھے مجبور کرے کہ میں ویسا ہی سوچوں جیسا کہ کوئی خود سوچتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ آپ کی مرضی و منشا کے مطابق زندہ رہے۔ یہ تو دورِ جاہلیت کی بات ہے کہ جب انسان کو انسان کا معاشی غلام ہونے کے ساتھ ساتھ فکری غلام بھی رکھا جاتا تھا۔ یونان کی پرانی ریاستوں میں تو یہاں تک پڑھنے میں آیا ہے کہ جب ایک ریاست دوسری پر قبضہ کر لیتی تھی تو مفتوح کا دیوتا بھی وہی ہو جاتا تھا جو فاتح کا ہوا کرتا تھا مگر یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ابھی غلامی نے ادارے کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ ادارے کی شکل اختیار کرنے کے بعد تو غلاموں نے ویسا نہیں سوچا جیسے آقا سوچتے تھے۔ اگر پھر بھی آپ اکیسویں صدی کے انسان سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ آپ کی مرضی و منشا کے مطابق زندگی گزارے گا تو آپ دراصل احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ بہرحال یہ ممکن ہے کہ آپ جبر، ظلم اور تشدد کے ذریعے انسانوں کو وہی سوچنے پر مجبور کر دیں جو آپ کی مرضی و منشا ہے لیکن کیا مضبوط فکری حوالے رکھنے والے انسان مجبور ہوتے ہیں؟ کیا سوچ کے پنچھی کو کسی پنجرے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ کیا کبھی فکر پس زنداں ہوئی ہے؟ کیا جسم کی موت کے ساتھ فلسفے ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا فرد کی موت فلسفے کی موت ہوتی ہے؟ کیا دنیا کی کوئی تلوار قلم سے تیز اور کوئی گولی فکر سے زیادہ برق رفتار ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہے نہیں۔
وطن ِ عزیز کو معرضِ وجود میں آئے کوئی صدیاں تو بیت نہیں گئیں کہ اس کے معتبر حوالوں کو ختم
کیا جا سکے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یہ مملکت معرضِ وجود میں آئی۔ ابھی تو وہ بہت سے چشم دید گواہ زندہ ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے، بگڑتے اور ٹوٹتے دیکھا۔ ہم اُن بزرگوں سے فیض یاب ہوئے ہیں جنہوں نے ہجرت کے صدمات سے لے کر پاکستان میں تذلیل تک کے تمام مناظر دیکھے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج 75 سال بعد بھی ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ 75سالہ تاریخ میں اگر کوئی کام تسلسل سے ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف مکر و فریب اور ریا کاری ہے مگر ایسا کیوں ہوا؟ بھلا کوئی اپنے وطن، اپنے لوگوں، اپنی حکومتوں اور اپنے اقتدارِ اعلیٰ کو نقصان کیوں پہنچاتا ہے؟ امریکہ، اسرائیل، بھارت بے شک پاکستان کے دشمن ہوں گے لیکن پاکستان کے ساتھ دوستی کی جو تاریخ ہم نے رقم کی ہے وہ بھی انتہائی شرمناک ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان ہیں لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے بدزبانوں اور گستاخوں نے اُنہیں کیا کیا نہیں کہا۔ پاکستان بارے اُن کے نظریات کیا تھے وہ اخبارات ابھی تک لائبریریوں میں محفوظ و سلامت پڑے ہیں لیکن یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان بننے کی محالفت کی، جن کے قائد اعظم محمد علی جناح بارے خیالات انتہائی ہتک آمیز تھے، جو مسلم لیگ کو کافروں کا ٹولہ قرار دیتے تھے پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی پاکستان کے مامے چاچے بن گئے یا بنا دیئے گئے۔ پہلے ایک مخصوص فکر کو پروان چڑھایا گیا اور پھر یہ ملک اُس فکر کے مزار پر چڑھا دیا گیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان میں ون پارٹی رول کی بات ہو رہی تھی۔ کوئی اس جغرافیہ کا شجرہ نسب عرب سے ملا رہا تھا تو کوئی علم حاصل کرنے کیلئے چین جانے کا تمنائی تھا۔ کسی نے اس کو سیکولر بنانے کی بات کی تو کوئی قرار داد مقاصد لے آیا۔ پس افراتفری کا عالم تھا جس کے ہاتھ میں جیسی اینٹ اور روڑا آیا اُس نے نوزائیدہ مملکت کی بنیادوں میں دفن کر کے اپنا حق ِ ملکیت کا مقدمہ قائم کر لیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہم ہندو اکثریت کی غلامی میں چلے جائیں گے اس لیے انہوں نے علیحدہ وطن کیلئے جدو جہد تیز کی لیکن کیا معلوم تھا کہ وہی پسے ِ ہوئے طبقات جن کو ہندو اکثریت سے بچانا مقصود تھا وہ ”بالادست مسلم اشرافیہ“ کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ تخلیق پاکستان کے بدترین محالف یہاں معتبر اور معزز ٹھہر ے۔ جو یہ کہتے تھے کہ ”خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے“ اُن کی آل اولاد کو پاکستان کا وارث بنا دیا گیا۔ جنہیں قائد اعظم نے کھوٹے سکے کہا تھا وہ نہ صرف پاکستان میں چلے بلکہ آج بھی وطنِ عزیز کے گلی کوچوں میں دوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ نیلی پوشوں اور یونینسٹوں کیلئے جب کوئی پناہ گاہ نہ بچی تو مسلم لیگ نے نہ صرف اُنہیں سینے سے لگایا بلکہ آہستہ آہستہ پاکستان ہی اُن کے سپرد کر دیا۔ پے در پے آنے والی آمریتوں نے نفرت کی آبیاری کر کے اس ننھے سے پودے کو تن آور درخت بنا دیا۔ جس کی جڑیں پاکستان سے ہوتی ہوئی افغانستان تک جا پہنچیں اور جہاں اپنا گھناؤنا کھیل کھیل کر واپس پاکستان کے گلی کوچوں میں بے رحم خود کش حملہ آوروں کی صورت میں رقص کر تی رہی ہیں۔
کیا یہ اُن لوگوں کا ملک نہیں ہے جو اس فکر سے اختلاف کرتے ہیں؟ کیا یہاں دم گھٹنے والی عقل ہی ہمیشہ راج کرے گی؟ کیا پاکستان میں اُن لوگوں کا سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا جو عقل مستعار نہیں لیتے؟ کیا ماضی کے گھسے پٹے اور متنازع کرداروں کو نئی نسل کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا اس ملک کی سلامتی بہترین نظام معیشت میں ہے یا خود کش حملوں سے گونجتے ہوئے پاکستان میں؟ شاید ان سوالات کا جواب دینا کوئی بھی مناسب نہ سمجھے کیونکہ اس حمام میں اب سب ننگے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا اقتدار ہی ننگوں کا حمام ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اسمبلیاں ٹوٹ رہی ہیں، اپنی اپنی اناؤں کی جنگ میں فتح پانے کیلئے ہر ناجائز کام جائز کر کے کیا جا رہا ہے۔ عوام کے دم توڑتے معاشی حالات سے کسی کا کوئی تعلق نہیں، بازار چوروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں ٗ ہر طرف ڈاکو راج ہے لیکن سیاستدانوں کو ٹوٹی ہوئی اسمبلیاں اور قریب المرگ قوم کا انگوٹھا اپنے ووٹ پر چاہیے۔ وہ الیکشن کے بعد آپ کا ہر دکھ دور کر دیں گے جیسے پہلے انتخابات کے بعد ہوتا رہا ہے۔ الیکشن جب مرضی ہوں میں لکھ دیتا ہوں کہ کوئی بھی شخص اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا اور ایسی صورت میں عمران خان پھر انارکی کا رستہ اختیار کرے گا کیونکہ اب وہ گھر سے نکل کر احتجاج کرنے کی پوزیشن میں رہا نہیں اور باہر اُسے کسی نے جانے نہیں دینا کہ یہاں کھلنے والے کھاتوں کا حساب کتاب دینے بہت وقت لگ جانا ہے۔ آج ماضی کی قیادتوں پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے آپ کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں پاکستان کے موجودہ حالات ہی چیخ چیخ کر اُن کے خلاف شہادت دے رہے ہیں۔ بے یقینی کی ایسی فضا پہلے کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی۔ اقتدار کی رسہ کشی میں عوام مقتول ٹھہرتی ہے تو ٹھہر جائے اس سے بالا دست طبقے کا کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان بارے میرے یہ رائے تاریخ کے اوراق پر لکھی ہے کہ جن کرداروں نے اس وطن کا بُرا سوچا اُن کا اپنا انجام بھی بہت بھیانک ہوا۔ وہ اندرا گاندھی ہو یا پھر مجیب الرحمان، بھٹو ہو یا پھر ضیا الحق، مشرف ہو یا پھر عمران خان جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ تاریخ کی کتاب بہرحال آپ کے سامنے کھلی ہے۔ نئے کھیل تماشے جاری ہیں لیکن اب شاید بہت کچھ سمٹنے کی طرف جا رہا ہے۔ تمہاری اجارہ داری اور پوری ناتمام خواہشات، یہی آج کا تجزیہ ہے اور یہی کل کا سچ۔۔۔