سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے تعلقات ٹی وی چینلوں کی خبروں اور تجزیوں کا محور ہیں، عمران خان ہر روز جنرل باجوہ سے متعلق نت نیا انکشاف کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ہی انکے پرانے انٹرویوز چلائے جاتے ہیں جن میں وہ جنرل باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھتے سنائی دیتے ہیں، یہ سب دیکھ کر حبیب جالب کے“دس کروڑ یہ گدھے”(اب بائیس کروڑ) اس سوچ بچار اور بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کون محسن ہے اور کون محسن کش؟ کس نے وفا کی اور کس نے بے وفائی؟ اگر جنرل باجوہ اتنے پیار محبت سے عمران خان کو اقتدار میں لایا تھا تو کیا عمران خان کو انھیں میر جعفر اور میر صادق کا لقب دینا چاہئیے تھا؟ اور اب بھی کیا عمران خان کو جنرل باجوہ کا ممنون حسین بن کر نہیں رہنا چاہئیے؟ ایسی ساری خبروں اور انکے تجزیوں سے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی جرنیل سیاسی انجینئیرنگ کر کے کسی سیاستدان کو وزیر اعظم بنا ہی دیتا ہے تو سیاستدان پر اس جرنیل کا احترام اخلاقی فرض ہے، اب ایک عام آدمی تو یہی سوچے گا نہ کہ بیچارے جرنیل سے زیادتی ہو رہی ہے اور عمران خان محسن کش اور بے وفا ہیں۔ اخلاقی فرض آئینی فرض پر حاوی دکھایا جاتا ہے۔
ایک ٹی پروگرام میں چند سینئرصحافیوں سے میزبان صحافی نے سوال پوچھا کہ ”آپکی رائے میں عمران خان اور جنرل باجوہ میں سے کس نے کس کے ساتھ بے وفائی کی؟“ اس ایک سوال میں ہمارے قومی میڈیا اور دانشوروں کے سوچ سمجھ پوشیدہ ہے جس نے اس بیچاری قوم کی ذہنوں کو بھی جکڑ رکھا ہے، یعنی کہ قوم کا مسئلہ الیکشن چوری، سیاست میں فوج کی مداخلت اور آئین سے سنگین غداری نہیں بلکہ سیاسی انجینئرنگ کے قومی مجرموں کی آپس میں وفاداری اور بے وفائی ہے، میزبان صحافی کے سوال کا جواب تو یہ بنتا تھا کہ جناب عمران خان اور جنرل باجوہ جیسے کردار جنھوں نے پہلے ایک منتخب حکومت کیخلاف سازش کی اور2018ء کے الیکشن چوری کر کے آئین سے بے وفائی کی تو ایسے کرداروں کی ایک دوسرے سے بے وفائی پر بحث سے مطلب؟ جو لوگ اس ملک، اسکے آئین اور اس پر اٹھائے گئے اپنے ہی حلف سے وفاداری نہیں کر سکے انکی ایک دوسرے سے وفاداری پر بحث فضول نہیں تو اور کیا ہے، مگر افسوس کہ آجکل بھی ہمارے صحافی تجزیہ کار بڑی خبر اور بریکنگ نیوز دینے والی اسٹیبلشمنٹ کو درست تجزیوں اور سوالات کر کے ناراض نہیں کر سکتے، اگر وہ یہ سوال کریں یا ایسا تجزیہ کریں کہ آئین کے خلاف جنرل باجوہ کے بلواسطہ اعترافاتِ جرائم پر ملک، قوم، ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کاروائی کیوں نہیں کر رہی تو انہیں بڑی خبریں ملنا شاید بند ہو جائیں، مگر پھر ٹی وی میڈیا بیچارے پر بھی ”مشہور شاعر امام دین“ کا وہ شعر صادق آتا ہے ”کوئی تن ویچے کوئی من ویچے۰۰۰امام دین پکوڑے نہ ویچے تے۰۰۰کیہہ ویچے“ یہ وہ قومی المیہ ہے جس سے راقم الحروف سمیت تمام صحافی اور قوم دوچار ہے، صرف اسکا ادراک اور اظہار اْس تسلسل سے نہیں کیا جا رہا جس طرح ہونا چاہئیے، ہماری قوم بقول نصرت جاوید صاحب کے“اندھی نفرتوں اور محبتوں ”میں بٹی ہے، ہر کوئی جاننے سے زیادہ بتانا بلکہ سنانا چاہتا ہے، مہذب اور جمہوری معاشروں میں سیاسی تقسیم اختلافی نظریات کی بنیاد پر ہوتی ہے شخصیت پرستی پر نہیں، مگر ہمارے معاشرے کے کچھ طاقت ور طبقوں نے اپنے آئین شکن رویًوں کو لفظ نظریے کا غلاف پہنا رکھا ہے، معاشرتی، سماجی اور معاشی نظام سے نابلد اس بندوق بردار طبقے کی رعونت اور قل پڑھے جانے کے لائق انکی عقلِ کل نے معاشرے کی دانش کے صحراؤں اور تخلیقی سوچ کے دریاؤں کو ایک ٹھوکر سے دو نیم کر دیا ہے، انکے نزدیک نظریہ وہ جو آئین میں نہیں انکی سوچ میں بستا ہے، اسی لئے تو یہ طبقہ لہک لہک کر گاتا ہے“تم اپنے نظریے پاس رکھو، ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں۔”اس گانے کی جس فلم کے ذریعے کچھ شہریوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو اس ملک کا“مالک”دکھایا گیا تھا وہ معروف پرڈیوسر پاکستان سے جان بچا کر امریکہ بھاگ نکلا۔ اسی طرح ایک ٹی وی ڈرامے کے ذریعے بھی ایسی سوچ کے حامل اس ”عقل قل“ طبقے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ جس طرح سیاستدان اور پولیس کے لوگ ملک سے وفاداری نہیں نبھا سکتے تو بندوق بردار بھی تو”آخر بہتر انسان ہیں“ اور ان سے ”عہدِ وفا“ نبھانے کی توقع کرنا بھی تو زیادتی ہو گی۔ ویسے اْس ڈرامے میں پاسنگ آؤٹ پریڈ پر ”عہدِ وفا“ یا قسم میں ”سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لونگا“ والا حصہ بھی کاٹ دیا گیا تھا۔ اسکی وجہ پھر ریٹائرڈ سپہ سالار نے قوم کے شہیدوں کے مزار پر بتا دی یہ کہہ کر کہ فوج نے فروری 2012ء میں سیاست سے کنارہ کشی کر لی تھی، یعنی اس سے پہلے جناب سپہ سالار اور انکی فوج بطور کیڈٹ آئین سے کئے گئے ”عہدِ وفا“ کے برخلاف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ بظاہر فروری 2012ء میں انہوں نے سیاست سے دور رہنے کا ایک اور”عہدِ وفا“ کیا جسکے لئے کسی تقریب کی ضرورت بھی نہ تھی۔
تو جناب دو چوروں کی ایک دوسرے سے بے وفائی اور انکے آپس کے اختلافات سے قوم کا کیا لینا دینا ہے؟ دونوں چور بظاہر اپنی چوری کا ڈھکے چھپے الفاظ میں اعتراف کر رہے ہیں، مگر کیاہے کہ ”چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔“ اب مسئلہ یہ ہے کہ چور خود کو احتساب کے لئے جب تک سرِعام پیش نہیں کرتا اسوقت تک ہیرا پھیری تو کیا درحقیقت وہ چوری سے بھی باز نہیں آتا، اور یہی حال اسکے اعانت کاروں کا بھی ہوتا ہے، باجوائی دور میں جن جن سیاستدانوں (جیسے عمران خان، ق لیگ و دیگر)، کچھ صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے عوامی مینڈیٹ کی چوری پر چوروں کا ساتھ دیا اور خاموش رہے یہ لوگ اب یا تو جنرل باجوہ کے کیمپ میں پڑاؤ ڈالیں یا پھر عمران خان کے، دوسری طرف حکمران اتحاد بھی خود کو جنرل باجوہ کے احسانوں تلے دبا محسوس کرتا ہے، لگتا ہے جنرل باجوہ اور جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی پنشن و مراعات کیساتھ کچھ آڈیو ویڈیو کیسٹوں کے بکسے بھی لے گئے ہیں تاکہ وقت پڑنے پر ناقدین کو”کرارا جواب“ دیا جا سکے، اب پلے بوائے عمران خان تو ان آڈیوز ویڈیوز کے مواد کو معمول کی بات سمجھتے ہونگے کیونکہ انکے نزدیک یہ نوجوانی کا ایک مرحلہ ہوتا ہے جو شاید پاکستان کے نوجوانوں میں انہیں مزید(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
مقبول بناتا ہے، مگر بیچارے اْن سیاستدانوں کا کیا بنے گا جنکی کوئی ویڈیو نہیں یا جن پر ایک پلے بوائے نے کرپشن کا الزام ایسا چسپاں کر دیا ہے کہ اسکے بعد قمر اینڈ فیض اینڈ کو کی کوئی بھی آڈیو ویڈیوو انکے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔
جس قوم کیساتھ اسکے ایک سپہ سالار اور جاسوسِ اعظم نے ایک وزیر اعظم کیساتھ ملکر اتنا کچھ کر دیا ہو اور جن تینوں کے کرتوت آہستہ آہستہ منکشف ہو رہے ہوں تو کیا اس قوم کا مسئلہ یہ ہو گا کہ ان چوروں نے ایک دوسرے کیساتھ کتنی وفادار نبھائی اور کتنی بے وفائی کی؟ حکمرانوں کی مصلحت جو بھی ہو قوم کو درست مسئلے سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں، قوم کے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو بظاہر ایک سنہری موقعہ ملا ہے کہ وہ سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے راہِ فراری کیمپوں سے نجات دلائیں، جنرل باجوہ کے اعتراف گناہ کے بعد اب باری ہے قوم سے معافی مانگنے اور توبہ کرنے کی، آئین کی روح کے عین مطابق سول اور ملٹری تعلقات کو ماسٹر اور سرونٹ کے پیرائے میں لانے کی، سیاستدانوں اور دانشوروں کو عمران خان، جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ایک ہی بار سرِعام اپنے گناہوں کے اعتراف کا مطالبہ کرنا چاہئیے، ہماری یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کو ملک میں سویلین بالادستی کو یقینی بنانے کے لئیے عملی اقدامات سے متعلق تحقیق کرنی چاہئیے، میڈیا کو ان مینڈیٹ چوروں کے بیچ اختلافات پر خبروں اور تجزیوں کی بجائے ان حقائق اور واقعات کو آئین سے غداری کے تناظر میں زیر بحث لانا چاہئیے، افواجِ پاکستان پر وفاقی حکومت کے آئینی کمانڈ اور کنٹرول کے ڈھانچے کی بحالی اور اسی سے جڑی اسٹیبلشمنٹ کی کاروباری سلطنت کی بہتر کارکردگی و حکومتی نگرانی کے موضوعات پر اگر اب بھی بات نہیں ہو گی تو پھر ڈیفالٹ جیسے حالات کے بعد بہت دیر ہو جائیگی۔
آج کل کے جس سیاسی اور معاشی بھنور میں قوم کی ناؤ پھنس چکی ہے تو ایسے میں مذکورہ بحث شاید غیر متعلق لگے مگر ہمیں یہ ماننا پڑیگا کہ موجودہ حالات کی اصل وجہ غیر آئینی اور غیر شرعی سول ملٹری تعلقات ہی ہیں، معیشت اور سیاست کی جنگ اپنی جگہ مگر اسکو بنیاد بنا کر دانشوروں اور یونیورسٹی محقیقین کو اپنا کام بند نہیں کر دینا چاہئیے، یونیورسٹیوں میں اعلی ترین سطح پر اب جن موضوعات پر تحقیق لازم ہے اس میں ملک کے موجودہ سیاسی، معاشی و سماجی بحران، اسٹیبلشمنٹ کی کاروباری سرگرمیوں، ماضی حال اور مستقبل میں خفیہ اداروں کا کردار، وزارت دفاع کے آئینی و قانونی اختیارات، سوشل میڈیا اور سول ملٹری تعلقات جیسے موضوعات شامل کئیے جا سکتے ہیں، اسی طرح ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے واسطے یونیورسٹی طالب علموں اور ملک کے تھنک ٹینکس کو پارلیمنٹ اور اسکی قائمہ کمیٹیوں کے اختیارات، طلبا یونینز کی بحالی، لوکل باڈیز الیکشنز اور آزاد عدلیہ و آزاد میڈیا سے متعلق آزادانہ تحقیق بھی وقت کا تقاضہ ہیں، ان موضوعات پر بحث مباحثہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت پر بھی لازم ہے کہ افواج پاکستان پر اپنے آئینی کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ عوام کو یقین آ جائے کہ ماضی میں عمران خان جیسے سیاستدانوں نے کس طرح اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن کر ملکی سیاست کو پراگندہ کیا۔
سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ آئندہ الیکشنز میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنی اپنی جامع پالیسی کا اعلان کریں۔ جو جماعتیں اس موضوع پر اپنی پالیسی واضح نہیں کرتی تو میڈیا اور تھنک ٹینکس ایسی سیاسی قووتوں کے دوغلے پن کو بے نقاب کریں، اگر ہم بطور قوم یہ سب نہیں کرینگے تو پھر اس قوم کو مستقبل میں بھی باجوائی کرداروں کے فیض کا سامنا ہو گا جو اپنے اپنے پلے بوائز کے ساتھ اس قوم پر“مسلط”رہینگے۔
مطیع اللہ جان