شہزاد ملک
ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ یقیناً ایک اعزاز ہے، تاہم اگر ان کی تقرری کی سفارش نہ بھی ہوتی تو امکان یہی تھا کہ وہ 2026 میں لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں جو اپنی نوعیت کا ایک الگ اعزاز ہوتا۔جسٹس عائشہ اے ملک 3 جون 1966 میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے امریکہ میں ہارورڈ لا سکول سمیت پاکستان اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی۔ وہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی ایسوسی ایٹ رہیں اور لگ بھگ چار برس تک یعنی 1997 سے لے کر 2001 تک ان کے ساتھ بطور معاون کام کیا۔
55 سالہ جسٹس عائشہ اے ملک اْس لا فرم کا حصہ رہی ہیں جس کو قائم کرنے والوں میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی تھے۔جسٹس عائشہ اے ملک کو عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد 27 مارچ 2012 کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور دس برسوں کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں کسی خاتون وکیل کا بطور جج تقرر ہوا۔جسٹس عائشہ اے ملک کے لاہور ہائیکورٹ میں تقرر کے بعد اْس وقت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کے تقرر کے خلاف ایک قرار داد بھی منظور کی جس میں ان کے تقرر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
حال ہی میںجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کے بعد اب ان کی تعیناتی کا معاملہ حتمی منظوری کے لیے ججوں کی تقرری کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوا۔ اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا جو کہ جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے سے متعلق تھا۔جسٹس عائشہ ملک کا نام دوسری مرتبہ کمیشن کے سامنے رکھا گیا تھا۔ اْن کا نام چیف جسٹس گلزار احمد نے تجویز کیا تھا۔کمیشن کے پانچ ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی حمایت اور چار نے مخالفت کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ر سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے تعیناتی کی حمایت کی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج تک کوئی خاتون جج تعینات نہیں ہوئیں۔ گذشتہ برس بھی جسٹس عائشہ ملک کا نام تجویز ہوا تھا تاہم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کے چار چار ووٹ برابر ہونے کی وجہ سے اْن کی تعیناتی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کی وکلا تنظیموں کا ایک دھڑا جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کو ’سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے اس تجویز کی مخالفت کر رہا تھا۔جبکہ خواتین وکلا کی تنظیم نے مؤقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ میں سینیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی ابھی تک ایک معمہ ہے اور اس حوالے سے نہ تو ملکی آئین میں لکھا گیا ہے کہ سینیارٹی کو مدنظر رکھا جائے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے۔جوڈیشل کمیشن کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس کے موقع پر وکلا تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے مدِنظر پولیس کی بھاری نفری سپریم کورٹ کی عمارت میں تعینات کی گئی تھی۔گزشتہ اجلاس میں کمیشن کے رْکن اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج دوست محمد نے سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور وکلا کے موقف کی تائید کی تھی۔جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد کی بطور ممبر کمیشن دو سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اْن کی جگہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سرمد جلال عثمانی کو کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا ہے۔جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کی بطور رکن جوڈیشل کمیشن تعیناتی سے متعلق حکومت اور وکلا تنظمیں یہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ کمیشن کے نئے رکن بھی اْن کے موقف کی تائید کریں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کے مطابق
وکلا تنظمیں جسٹس عائشہ ملک کے خلاف نہیں ہیں اور بلکہ نمائندہ تنظیمیں چاہتی ہیں کہ سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سینیئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے۔تاہم اجلاس کے روزہی لاہور ہائی کورٹ بار نے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے۔درخواست میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کے قواعد و ضوابط (رولز) نہیں بنتے اس وقت تک سنیارٹی کے ہی اصول کو مدنظر رکھ کر تعیناتیاں کی جائیں۔اس درخواست میں یہ کہا گیا ہے کہ جونیئر ججوں کی تعیناتی سے سپریم کورٹ کی ساکھ بطور ادادہ متاثر ہو رہی ہے۔
اس درخواست میں ماضی میں جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کے حوالے دیے گئے ہیں۔ جونیئر وکلا کی درخواست کے مطابق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سندھ ہائی کورٹ کے جونیئر جج منیب اختر کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دی جبکہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں جسٹس قاضی امین اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جج تعینات کیا گیا۔جسٹس عائشہ ملک قانون کی ماہرمانی جاتی ہیںوہ آئینی، بینکنگ، ٹیکس اور انسان حقوق کے امور دسترس رکھتی ہیں۔لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پاکستان کی مختلف جامعات میں بینکنگ لا اور مرکنٹائل لا پڑھا چکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے کیسز میں ماہر کے طور پر بلایا جاچکا ہے۔انہوں نے مختلف این جی اوز کے ساتھ غربت کے خاتمے، مائیکرو فنانسنگ اور ہنر کی ٹریننگ کے پروگرامز میں معاونت کی ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت آکسفورڈ رپورٹس فار انٹرنیشنل لا اِن ڈومیسٹک کورٹس کے لیے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔جسٹس عائشہ اے ملک کے مقبول فیصلوں میں جنسی تشدد کی شکار خواتین کے طبی معائنہ کے طریقہ کے بارے میں فیصلہ بہت نمایاں ہے۔ شریف فیملی کی شوگر ملوں کی جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان منتقلی سے روکنے کا فیصلہ بھی ان کے مشہور فیصلوں میں سے ایک ہے۔ان کی شادی نجی لا کالج کے پرنسپل اور قانون دان ہمایوں احسان سے ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔سپریم کورٹ کا جج مقرر ہونے کے بعد جسٹس عائشہ اے ملک کی معیاد عہدہ میں تین برس کی توسیع ہوجائے گی۔ پہلے انہوں نے دو جون 2028 ء کو ریٹائرڈ ہونا تھا لیکن اب 2031 میں ریٹائر ہوں گی۔اس توسیع سے سپریم کورٹ کی نئی جج جسٹس عائشہ اے ملک اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے چیف جسٹس پاکستان بن سکتی ہے جو ایک منفرد اعزاز ہوگا۔
٭٭٭