اسلام آباد: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت نے سٹیٹ بینک بل پاس کرکے ملک دشمنی کی ۔ گورنر سٹیٹ بینک مادر پدر آزاد ہوگا اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہے گی تو سٹیٹ بینک اس کے آگے دیوار بن جائے گا۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کسی کو جواب دہ نہیں ہوگا ۔ پارلیمنٹ بھی اسٹیٹ بینک کے گورنر سے کچھ پوچھ نہیں سکے گی۔ اس کے علاوہ گورنر سٹیٹ بینک عالمی ادارے اس سے جو معلومات چاہیں لے سکیں گے جو ملکی خود مختاری پر حملہ اور ملک دشمنی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ رات کے 11 بجے اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پاس کیا گیا۔اگلے دن نیشنل سیکیورٹی کی رونمائی تقریب ہوئی۔ اسٹیٹ بینک مکمل طور پر پاکستان کے معاملات سے آزاد ہوچکا ہے۔ حکومت کی پالیسی اب اسٹیٹ بینک کے تابع ہوگی۔اگر اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون پاس گا تو وہ حکومت کی نہیں سنے گا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس قانون سے حکومت کو خود کو چلانا بہت زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اس بل نے 1956 کے اسٹیٹ بینک کے ایکٹ کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ اسٹیٹ بینک کی ہئیت اور کام کرنے کی نوعیت کو بدل دیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک ملک کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب عوام منتخب نمائندوں کی پالیسی کے تابع نہیں ہوں گے۔ عوام کی زندگی پراب مہنگائی،غربت،بیروزگاری کے اثرات زیادہ پڑیں گے۔ سوال پیدا ہوا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ کیسے مقرر کی جائے گی۔ قانون کےبعد گورنر اسٹیٹ بینک ملک میں سب سےزیادہ تنخواہ لینے والے ہوں گے۔ پاکستان کا دوسرا طاقتور شخص گورنراسٹیٹ بینک ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ڈپٹی گورنر اب گورنر اسٹیٹ بینک کی مرضی کے بغیر نہیں لگ سکیں گے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنرکی مدت 3 سال ہوتی تھی جو 5 سال ہوچکی ہے۔ قانون کےبعد گورنر اسٹیٹ بینک ملک میں سب سےزیادہ تنخواہ لینے والے ہوں گے۔
پاکستان کا دوسرا طاقتور شخص گورنراسٹیٹ بینک ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنرکی ماضی میں مدت 3 سال ہوتی تھی جو 5 سال ہوچکی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں 8 آدمی لگائے جائیں گے جو حکومت لگائے گی۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی مدت 5 سال ہوگی۔ حکومت کی مدت بھی 5 سال ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہونا ضروری تھی۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہے تو اسٹیٹ بینک روک سکتا ہے۔ فیصلے اس اسٹیٹ بینک کے پاس چلے گئے جو کسی کا تابع نہیں۔ ملکی معیشت اور معاملات چلانےمیں حکومت کی خود مختاری اس قانون کے ذریعے ختم ہوگئی۔ ایگزیکٹو کمیٹی تمام امور کی ذمہ دار ہوگی۔