سیاست دانوں کو قوم کے غم میں نیند تو آتی نہیں خواب کیسے دیکھتے ہیں؟ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوں گے جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔ خواب دیکھنا سب کا حق، پاکستان کے قیام کا پہلے پہل خواب ہی دیکھاگیا تھا۔ اللہ غریق رحمت کرے ان رہنمائوں کو ایک نے خواب دیکھا دوسرے نے تعبیر ڈھونڈی۔ جمہوریت عوام کی خواہش بھی خواب بھی لیکن ایسی جمہوریت نہیں جس میں ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ مصرع نصف صدی پرانا اب تو ناپ تول کر اتحادی بنائے جاتے ہیں۔ ایک پلڑے میں ذاتی مفادات جماعتی خواہشات دوسرے میں جمہوریت۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی ان ہی اتحادیوں کے دم قدم سے ہوتی ہے۔ گزشتہ جمعرات یادگار دن، صبح بجلی کے نرخوں میں 4 روپے 30 پیسے یونٹ اضافہ کیا گیا جبکہ رات گئے تک ضمنی فنانس بل (منی بجٹ بل) سٹیٹ بینک سمیت چھ سات بل ایک ہی جھٹکے میں منظور ہوگئے۔ شوکت ترین کا خواب پورا ہوگیا۔ آئی ایم ایف میںسبکی سے بچ گئے۔ مزید ایک کروڑ ڈالر قرضہ لے سکیں گے۔ اپوزیشن صرف نعرے لگاتی رہی۔ ایوان میں گنتی کی گئی اپوزیشن 150 حکومتی پلس اتحادی 168، دوبارہ گنتی میں اپوزیشن 146، حکومتی پلس اتحادی 163، بل منظور، بندے گنے گئے تو لے جانے کی فرصت نہیںملی۔ کسی قابل ہوتے تو 350 ارب کے ٹیکسوں پر معترض ہوتے سب کے تحفظات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ترامیم جیبوں سے نہ نکل سکیں( 350 ارب کے ٹیکس لگ گئے حمایت کرنے والوں پر اثر نہیں پڑے گا) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے دھجیاں اڑانے والی شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے دھواں اڑانے والی اور اسد عمر نے آگ لگانے والی تقریریں کیں شوکت ترین نے کہا پی پی ن لیگ 13 بار آئی ایم ایف کے پاس گئیں۔ شیخ رشید نے 13 کو 23 بنا دیا۔ لوگوں نے کہا 13 بار گئیں یا 23 بار لیکن مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوا۔ حیرت ہے کسی نے سوچا ہی نہیں کہ منی بجٹ کی منظوری کے بعد عوام پر کیا گزرے گی۔ کیا کریں، ’’جو وعدہ کیا ہے نبھانا پڑے گا‘‘ عوام کے خواب مہنگائی کے بھاری بوجھ تلے دب کر ریزہ ریزہ، معاف کیجیے سیاستدانوں کے سچے جھوٹے خوابوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم و مغفور سے نواز شریف اور نواز شریف سے عمران خان تک ہر سیاستدان نے عالیشان خواب دیکھے۔ جبکہ ان کے خلاف بھی خواب دیکھے گئے، ہر دور کے منجم الگ، ہر ایک کے ستارے ان کی مرضی اور حالات کے مطابق مدار میں گھومتے دکھائے گئے۔ ستاروں کی گردش 73 سال سے جاری۔ ملک اور عوام کے حالات نہ بدل سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کا خواب دیکھا۔ مگر بد قسمتی سے اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے زندہ
نہ رہے۔ نواز شریف ملک کو کس ٹریک پر ڈالنا چاہتے تھے صنعتکار ذہن، وہی خواب، موٹرویز کی تعمیر، سستی بجلی، موٹروے پر ہر دس کلو میٹر پر صنعتی کارخانے، برآمدات میں اضافہ، ملکی معیشت مضبوط ملک خوشحال، کتنا سہانا خواب تھا۔ لیکن ہر بار کچی نیند سے اٹھا دیے گئے۔ 3 بار وزیر اعظم بنے خواب پورا نہ ہوسکا۔ تیسری بار تا حیات نا اہل قرار، دل کے مریض، علاج کے لیے باہر گئے اب تک باہر ہیں۔ اپنے شیخ صاحب کو یقین ہوگیا کہ چاروں شریف سیاست سے مائنس ہو چکے۔ ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں خوابوں نے کیا کام کیا۔ دیکھا اس بیماری دل نے سارا کام تمام کیا‘‘ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی ساری کوششیں بس خواب،کوئی تعبیر نہیں،سب ناکام وجوہات ڈھکی چھپی نہیں، اپوزیشن لیڈر اب تک خوابوں ہی خوابوں میں وزیر اعظم کو ڈیڑھ سو مرتبہ گھر بھیج چکے۔ بلاول بھٹو روزانہ خواب دیکھتے ہیں،کم از کم ایک بار نیند سے بیدار ہوتے ہی بیان دیتے ہیں کہ سلیکٹڈ حکومت جا رہی ہے بلکہ گئی جیالے کمر کس لیں۔ 27 فروری کو لانگ مارچ کرتے اسلام آباد پہنچیں گے۔ اس وقت تک حکومت اپنا بوریا بستر باندھ چکی ہوگی۔ صوبائی مشیر منظور وسان کو شاید خواب دیکھنے کے لیے ہی رکھا گیا ہے۔ وہ ہر ہفتے پندرہ دن میں ایک دو خواب دیکھ لیتے ہیں ان کے خواب دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز بھی ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے بیدار ہوتے ہی کہا کہ سال 2022ء عمران حکومت کے لیے خطرناک ہے آئندہ انتخابات میں عمران خان کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ ہوں بلکہ عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے اس صورت میں پی ٹی آئی میں ٹکٹ لینے والا نہیں ملے گا۔ منظور وسان کے کتنے خواب جمع ہوگئے اب تک تعبیر نہیں ملی۔ ادھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کافی عرصہ بعد جاگے ہیں کہا ان ہائوس تبدیلی کے لیے پر امید ہوں، پہلے دن (تین سال پہلے) کہا تھا ان سے حکومت نہیں چلے گی۔ آصف زرداری ان ہائوس تبدیلی اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہیں۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں صرف 6 نشستیں ن لیگ اور جہانگیر ترین گروپ مل جائے تو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے لیکن کوئی بھی اپوزیشن لیڈر اپنے ٹریک سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی بار عددی قوت آزمائی گئی اپوزیشن کی نشستیں مل کر بھی حکومتی پلس اتحادیوں سے بارہ پندرہ کم رہیں، پتا نہیں زرداری صاحب کیا سوچ کر ان ہائوس تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ کئی بار عرض کر چکے۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے لیے گیارہ جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ناگزیر، ان میں 3 بڑی جماعتیں باقی سپورٹرز، پی پی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کو خدا حافظ کہہ کر دیکھ لیا۔ اب تک کوششوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ’’کیا بڑی بات تھی ہوتے جو یہ لیڈر سب ایک‘‘ آج تک پتا نہیں چل سکا کہ عین موقع پر پیپلز پارٹی اپنا ٹریک کیوں بدل لیتی ہے بد قسمتی کہیے کہ اس کی وجہ سے ن لیگ کے شہباز شریف اور ان کے آٹھ دس لیڈروں کے گلے اپنے خواب سنا سنا کر بیٹھ گئے ہیں لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کامیابی نصیب نہیں ہوپائی۔ 23 مارچ کا لانگ مارچ دور ہے اس سے پہلے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔وزیر اعظم کے منہ سے دانستہ یا نادانستہ نکل گیا کہ آئندہ تین ماہ اہم ہیں اتنی سی بات پر سیاستدان خوابوں کی دنیا میں جا پہنچے کسی نے دیکھا کہ بڑا ہی مضبوط ہاتھ اِدھر اُدھر کہیں نظر نہیں آرہا۔ کسی نے اختلافات کی ہانک لگائی۔ گزشتہ روز وزیر دفاع پرویز خٹک نے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں صدائے احتجاج بلند کی تو خوابوں کے جزیروں میں ہلچل مچ گئی۔ پارٹی میں بغاوت ہوگئی کچھ ہونے والا ہے۔ زبانیں کھل گئی ہیں ایک تجزیہ کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وزیر اعظم خود اپوزیشن کو حکومت دینے کی بات کر رہے ہیں جو خالی از علت نہیں۔ دو دن بعد سارے اتحادی اکٹھے، خوابوں کے جزیرے ویران، منادی کرنے والے نے ندا دی کہ مہنگائی ختم ہوگی نہ حکومت جائے گی ایک ہی راستہ عوام لہجہ بدل کر کمر توڑ مہنگائی کے خلاف آواز بلند کریں یا اپوزیشن ایک ہوجائے۔ سیاستدانوں کے جھوٹے سچے خواب جمہوریت کا جزو بن گئے ہیں اقتدار میں آنے کے خواب آنے کے بعد کبھی نہ جانے کے خواب۔ اپوزیشن لیڈروں کے اپنے اپنے خواب، ڈیل، ڈھیل، اِدھر اُدھر کہیں سے بھی این آر او حاصل کرنے کے خواب سوچ اور مطمع نظر صرف اقتدار، عوام کی خوشحالی، مہنگائی کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی اور ملکی استحکام اب تک صرف خواب، عوام کی چیخ و پکار ’’خواب تو دیکھے ہیں تعبیر نہیں ملتی، نتیجہ پریشانی، پشیمانی۔