ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی عوام کو اچھی سے اچھی سہولیات فراہم کرے اور اپنی حکومت کی ایک ایسی مثال قائم کرے کہ دنیا یاد رکھے اور اس حکومت کے جانے کے بعد اس ملک کی عوام بھی اچھے کام کرنے والی حکومت کو اچھے لفظوں سے یاد کرے۔مگر بدقسمتی سے کچھ ایسا ہوتا آرہا ہے حکومتوں کو یاد تو رکھا جاتا ہے مگر اچھے الفاظ میں نہیں اور اس میں بہت حد تک قصور حکومت کا اپنا ہی ہوتا ہے وہ اپنے ملک کی عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اس کی وجہ کبھی اپوزیشن اور کبھی معاشی حالات کی خرابی ہوتی ہے۔
موجودہ دور کو دیکھا جائے تو اپوزیشن نے کوئی اتنا سخت ٹاسک نہیں دیا۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم نے اگر ماضی میں غلطی کی ہے تو حکومت ہماری غلطیوں کو سدھارے مگر پی ٹی آئی عوام کو ویسے سہولیات دینے میں ناکام رہی ہے جیسے اس نے عوام سے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدے کئے تھے۔
مگر جس طرح موجودہ حکومت نے عوام کا احساس کرتے ہوئے احساس پروگرام متعارف کرایا میں سمجھتی ہوں یہ پی ٹی آئی کا ایک بہت اچھا اقدام ہے جس کو سراہا بھی جانا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت نے ایک اور اچھا اقدام اٹھایا عوام کے لیے کہ ہمارے غریب عوام کو جو علاج معالجہ میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے لئے ہمیں کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہیے کہ ان کی پریشانی دور ہو سکے تو حکومت نے صحت کارڈ پروگرام عوام کو متعارف کرایا جس سے میں سمجھتی ہوں عوام کافی حد تک مستفید ہونگے مگر شرط یہ ہے کہ صحت کارڈ ان لوگوں کو پہنچایا جائے جو اس کے حقیقی معنوں میں حقدار ہیں جو لوگ بات کرتے ہیں کہ حکومت کو کیا ضرورت تھی ابھی مگر میں سمجھتی ہوں کہ اگر حکومت میں یہ قدم اٹھایا ہے تو بہت ہی اچھا ہے کیونکہ اس چیز کی ضرورت پاکستان کی غریب عوام کو بہت تھی۔
ایک ملک کے عوام اچھی زندگی گزارنے کے لئے اس کی حکومت سستا مکان روٹی کپڑا ادویات فراہم کرے تو پی ٹی آئی یہ سب چیزیں کرنے میں کوشش تو بہت کر رہی ہے میں سمجھتی ہوں کہ ان حالات میں صحت کارڈ متعارف کرانا بہت ضروری تھا کیونکہ میرے علم کے مطابق اور جب میں نے پروگرام بھی کیا تو میں نے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کیا۔ ہمارے ملک میں 80فیصد لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور جو پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے وہ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر سوچا جائے کہ ہمارے عوام پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے سب سے پہلے سرکاری ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز کا رویہ عوام کے ساتھ سخت برا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جن کو عوام کا مسیحا کہا جاتا ہے فون پر خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور اس طرح گھوم رہے ہوتے ہیں کہ ان کو جیسے پوچھنے والا کوئی ہے ہی نہیں دیکھیں عزت تو ہر کسی کو بہت پیاری ہوتی ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔
اگر ہم کسی امیر بندے سے پوچھیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کیوں کرتے ہیں تو وہ یہ بات صاف کہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھ کر میں سوچتی تھی کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو ہسپتالوں میں جا کر ڈاکٹر حضرات کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں مگر جب مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہمارے ڈاکٹر حضرات کی ہے جو کان کو فون لگائے اور مریض کو چیک کرنے میں سستی کریں تو ایسے مریض کے لواحقین ڈاکٹر کے ساتھ جھگڑا نہ کریں تو کیا کریں۔ اور تو اور ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ سرکاری ہسپتالوں کی نرسیں بھی ماشاء اللہ سے بہت برا رویہ رکھتی ہیں عوام کے ساتھ۔
یہ چیز میں نے پی ٹی آئی کے دور میں ہسپتالوں میں زیادہ دیکھی ہے شاید چیک اینڈ بیلنس کا مسئلہ ہے ہم بڑے ممالک کے ساتھ اپنے ملک کا موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی ان بڑے ممالک کے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کریں تو ہمیں معلوم ہو کہ وہاں پر مریض کے لواحقین کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اپنے نرسز اور ڈاکٹر ہی بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں مریض کے ساتھ۔
ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے میں کسی حکومتی نمائندے سے ملاقات چاہتی تھی تو میری ملاقات حسان خاور سپوکس پرسن پنجاب گورنمنٹ سے ہوئی جب میں نے یہ سارا معاملہ ان سے ڈسکس کیا تو انہوں نے میری بات کو رد اور حقیقت سے انکار کرنے کے بجائے میری بات سے اتفاق کیا اور ساتھ ہی ساتھ کہا کہ ہم پر بھی بہت کام کر رہے ہیں کہ ہم اپنے سرکاری ہسپتالوں کے حالات کو بہتر کرسکیں تاکہ ہمارے عوام پرائیویٹ ہسپتالوں کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کریں۔جب میں نے پوچھا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جو صحت کارڈ متعارف کرایا جائے گا تو کیا ان ہسپتالوں کا رویہ بھی عوام کے سرکاری ہسپتالوں جیسا نہیں ہو جائے گا؟ حسان خاور صاحب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ بالکل ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہم ان پر خود چیک اینڈ بیلنس رکھیں گے اور اگر کوئی اس میں غفلت برتے گا تو اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی۔حسان خاور کا کہنا تھامانتے ہیں ملک میں اس وقت مہنگائی بہت عروج پر ہے ہم جلد از جلد اس مہنگائی پر قابو پانے میں کوشاں ہیں انہوں نے بتایا کہ جیسے حکومت نے احساس پروگرام صحت کارڈ اپنا گھر جیسی سکیمیں متعارف کرائی ہیں اسی طرح ہم مزدور کارڈ بھی بہت جلد متعارف کرانے جارہے ہیں۔ پہلی بار کسی حکومتی نمائندے سے مل کر خوشی ہوئی جس نے کھل کر چیزوں کو بیان کیا ورنہ حکومتی نمائندے تو حقیقت کو رد کرتے ہوئے صرف اپنی حکومت کی تعریفوں کے پل ہی باندھتے تھے۔ ساتھ ساتھ حسان خاور صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی عوام کو ہر سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں اور ہم ملک کی ترقی کے لئے کوشاں ہے۔
اگر پی ٹی آئی کی حکومت عوام کی خدمت کرے گی اور اس کم وقت میں ملک میں بہتری لائی اور مہنگائی کے جن کو قابو کرلیا تو میں سمجھتی ہوں کہ پی ٹی آئی ہمیں اگلے دور میں بھی دکھائی دے سکتی ہے جو کہ ابھی بہت مشکل ہے کیونکہ جو حالات نظر آ رہے ہیں عوام بہت ناراض ہے عوام کا صرف ایک ہی کنسرن رہ گیا ہے کہ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کرے۔ عوام کا کہنا ہے کہ جہاں پہ حکومت باقی اصلاحات متعارف کرا رہی ہے وہیں پر ایک مہنگائی جیسا جن قابو کرکے ہمارے دل خوش کر دے۔