تہران :بالآخر امریکہ نے ایران کی جانب سے عراق میں اپنی بیس پر حملے میں 11 امریکی فوجی زخمی ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق 8 جنوری کو ہونے والے ایران کے راکٹ حملے میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔گزشتہ روز امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ عراق میں فوجی اڈے پر ایرانی حملے کے دوران امریکی تنصیبات کو خاطر خواہ نقصان پہنچا۔
امریکی ٹی وی چینل سی این این کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ الاسد فوجی اڈے میں موجود امریکی فوجیوں کو ایرانی حملے کا تقریباً ڈھائی گھنٹے قبل علم تھا جس سے بچنے کے لیے انہوں نے بنکرز میں پناہ لی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ حملے کی معلومات ملنے کے کچھ دیر بعد ہی زیادہ تر فوجی یا تو فوجی اڈے سے روانہ ہوگئے یا پھر وہیں موجود بنکرز میں چلے گئے۔
ایرانی حملہ تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہا اور اس میں فوجی اڈے میں موجود صرف امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔فوجی اڈے میں موجود فوجی حکام نے حملے میں کسی جانی نقصان نہ ہونے کو ’معجزہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میزائل بنکرز سے محض چند میٹر فاصلے پر گر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں علم تھا کہ ایرانی حملہ کرنے والے ہیں تاہم اس کی کیا نوعیت ہوگی یہ ہمیں پتہ نہیں تھا۔گزشتہ ہفتے بدھ کی صبح ایران نے عراق میں موجود امریکہ کے دو فوجی اڈوں پر حملے کیے۔
امریکہ کے محکمہ دفاع کے مطابق ایران سے 12 بلیسٹک میزائل داغے گئے جن سے الانبار اور اربیل میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔ایران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ حملے میں 80 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے تاہم امریکہ نے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایرانی پر مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تاہم ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔
بعدازاں ایرانی کمانڈر کی جانب سے موقف سامنے آیا کہ حملے کا مقصد امریکہ کو جانی نقصان پہنچانا نہیں تھا۔تین جنوری کو امریکہ نے عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا جو ایران امریکہ کشیدگی میں اضافے کا سبب بنا۔