بلا شبہ ملک اس وقت شدید مسائل کا شکار اور قوم بے شمار مشکلات سے دوچار ہے،یہ بھی اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان مسائل و مشکلات کی ذمہ داری تحریک انصاف حکومت سے زیادہ ماضی میں بر سر اقتدار رہنے والی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے خاص طور پر وہ سیاسی جماعتیں جو اب پھر سے اقتدار کیلئے ملک و قوم کو اپنی عدم تعاون کی پالیسی کے باعث مزید مشکلات کے بھنور میں دھکیل رہی ہیں،یہ بات اپنی جگہ ایک سچائی ہے کہ عمران خان کوشش کے باوجود بھی اپنے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق کوئی اچھی حکومت نہ بنا سکے،ملکی حالات کا اچٹتی نگاہ سے جائزہ لیں تو اس کا واحد حل قومی یکجہتی ہے جسے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی اقتدار کے حریص کچھ سیاستدانوں نے دفن کر دیا،نتیجے میں کسی بھی تشویشناک،المناک حالات میں ہمارے سیاستدان ایک پیج پر دکھائی نہیں دئیے،عوام کی مشکلات کو بھی سیاستدانوں نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا ئے رکھا،آج پیپلز پارٹی اپنے طور پر اور ن لیگ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک مرتبہ پھر انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے نبرد آزما یہ جماعتیں خود بھی یکجہتی اور یکسوئی سے محروم ہیں،تحریک انصاف کے پاس وژن بھی تھا اور جنون بھی مگر حکومت میںآنے کے بعد اس جنون کی سمت راستی سے ہٹ گئی اور وژن کو بجا طور بروئے کار نہ لایا گیاوجہ اداروں میں یکجہتی اور وزارتوں ، محکموں میں یکسوئی نہ ہونا،حکومت اور انتظامیہ میں دوریاں ہے،مگر اس خلیج کو بھی پاٹنے کی کوئی عملی کوشش نہ کی گئی،نتیجے میں اچھی حکومت کا قیام ایسا خواب رہا جس کی تعبیر نہ ہو سکی ،وفاق اور پنجاب میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی سی کوشش کی کہ عوام کو ریلیف دیا جائے مگر اس کوشش سے وفاقی اور صوبائی وزراء کی اکثریت لا تعلق رہی،چند وزراء کی کارکردگی البتہ قابل تعریف ہے، اس صورتحال میں انتظامیہ نے حب الوطنی کا ثبوت دیا اور وزراء کی نا قص کارکردگی کی پردہ پوشی کیلئے سر توڑ کوشش کی اس کی تعریف نہ کرنا بھی بخیلی ہو گی۔
اپوزیشن نے حکومت گرانے کیلئے ایسے مضحکہ خیز اقدامات کئے کہ ہنسی آتی تھی،سب سے زیادہ ہنسی تب آئی جب حکومتی اتحادیوں کا ضمیر خریدنے کی کوشش کی گئی،آصف زرداری کے تو چودھری برادران سے پہلے بھی رابطے تھے،مگر جب ضرورت پڑی تو صدر ن لیگ شہباز شریف اٹھارہ سال بعد چودھری شجاعت کی خیریت دریافت اور چودھری پرویز الہٰی سے وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں تعاون مانگنے چودھری ہاؤس پہنچ گئے،انہیں متوقع جواب ملا اور چودھری برادران نے واضح کر دیا کہ وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اور رہیں گے،کسی جانب سے ٹھنڈی ہوانہ آنے پر ن لیگ نے جہانگیر ترین سے امید وابستہ کر لی ہے،جبکہ جہانگیر ترین سے شہباز شریف کا صرف سیاسی نہیں کاروباری بھی اختلاف ہے،مگر یہاں بھی شہباز شریف بھول گئے کہ ماضی میں جہانگیر ترین کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی،جہانگیر ترین بھی اس سے قبل اپوزیشن کے جھانسے میں نہیں آئے تھے اور حکومت مخالف کسی اقدام میں اپوزیشن کا ساتھ نہ دیا،اب اپوزیشن کاتمام تر انحصار آزاد ارکان اور حکومت سے ناراض حکومتی ارکان پر ہے،ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ انہیں پانچ حکومتی ارکان کی حمایت حاصل ہے اس کے بر عکس تحریک انصاف دس اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے،سچ کیا ہے یہ تو تب معلوم ہو گا جب تحریک عدم اعتماد آئیگی اور اس پر ووٹنگ ہو گی۔
حالات واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے خود اپوزیشن اعتماد سے عاری ہے،شہباز شریف تو اس کے حق میں ہی نہ تھے جس پر پیپلز پارٹی نالاں ہو گئی اور پی ڈی ایم سے عملی طور پر علیحدگی اختیار کر لی،نواز شریف کی تحریک پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں دوبارہ رابطے ہوئے،شہباز شریف نے نواز شریف کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر دی،مگر اب پیپلز پارٹی کی تمام تر توجہ لانگ مارچ پر ہے اور ن لیگ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے سرگرم ہے،لگتا ہے دونوں ہدف اپوزیشن کی رینج سے باہر رہیں گے، لانگ مارچ کامیاب ہو گا اور نہ تحریک عدم اعتماد سے مقاصد حاصل کر سکے گی،حکومتی حلقوں میں اب ہلچل دکھائی دے رہی ہے جب عام الیکشن سر پر ہیں،حالانکہ یہ الیکشن کیلئے ہنی مون پیریڈ ہوتا ہے اور حکومت آئندہ الیکشن میں سرخرو ہونے کیلئے اقدامات کرتی ہے،مگر حکومت اب عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کر رہی ہے،حکومت کی ان کوششوں سے ہر شعبہ زندگی کے افراد کو کاروبار کی، گھر بنانے کی،زراعت کو ترقی دینے،صنعت خاص طور پر سمال انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کر رہی ہے،جو خوش آئند ہے۔
اپوزیشن نے افواہوں کا بازار بھی گرم رکھا جس سے ملک میں بے چینی کو ہوا دی گئی،صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا گیا،معیشت کے دیوالیہ ہونے کی بے پر کی اڑائی گئی،ڈیل اور ڈھیل کی باتیں بھی سامنے آئیں،سب کچھ ہوتا رہا مگر شریف سیاستدانوں نے یہ نہ بتایا کہ ان کے معمولی ملازمین کے اکاؤنٹس میں کروڑوں اربوں کہاں سے آئے اور اگر ان کا اس سے تعلق نہ تھا تو ملازمین کے اکاؤنٹس سے رقوم ان کے اور بیٹوں کے اکاؤنٹس میں کیوں کر منتقل کئے گئے۔
سیاسی معاملات اگر چہ اتنے سیدھے نہیں کہ ان کی طرف توجہ نہ دی جائے مگر ایسے بھی گمبھیر نہیں کہ اس پر فکر مندی کا اظہار کیا جائے،اپوزیشن جمہوری روایات کے مطابق اپنی سی کوشش کر رہی ہے مگر خود اپوزیشن بھی جانتی ہے کہ کامیابی خارج از امکان ہے یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف عدم اعتماد تحریک کے حامی نہ تھے،اب مجبوری میں انہوں نے یہ فیصلہ لے ہی لیا ہے تو پیپلز پارٹی کامیابی کیلئے شہباز شریف کی کوششوں سے الگ تھلگ ہے،خود ن لیگ بھی بد دلی سے یہ اقدام کر رہی ہے،ناکامی پر ایک الزام گھڑا گھڑایا ان کے پاس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عدم اعتماد تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا،حالانکہ اسٹیبلشمنٹ عملی طور پر خود کو سیاست سے لا تعلق کر چکی ہے،وہ صرف ایسے معاملات میں مداخلت کرتی ہے جو ملکی سلامتی سے متعلق ہوں،اقتدارکس کے سپرد کرنا ہے اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا گیاہے،جسے عوام مینڈیٹ دیتی ہے اس کے ساتھ مل کر ملکی سلامتی کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ بھی ریاست کا اہم ادارہ ہے اور اس کی ذمہ داری ملکی سرحدوں کے ساتھ ملکی سلامتی کا تحفظ ہے،اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی ملکی سلامتی کے خلاف عمل کر رہا ہے تو حرکت میں آتے ہیں ورنہ سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کیا جاتا ہے مگر نواز شریف نے اس ادارہ کو ہمیشہ سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی اور اب بھی کی جائے گی۔