لاہور :دنیا بھر میں 6کروڑ سے زائد افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں اور مرگی کے مریضوں میں روزبروز اضافہ قابل فکر عمل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کل آبادی کا تقریباً ایک فیصد مرگی کے مرض میں مبتلا ہے۔ بچوں میں سے ہر بیس میں سے ایک بچہ مرگی کے مرض میں مبتلا ہے۔ مریضوں کی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہے جبکہ صرف ایک تہائی لوگ ادویات استعمال کر کے مرگی کا علاج کرا رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہارطبی ماہرین نے فاطمہ جنا ح میڈیکل یونیورسٹی کے نیورالوجی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ’’مرگی کے بارے میں عوامی شعور و آگاہی کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر سردار فخرامام نے بتایا کہ مرگی قابل علاج مرض ہے۔ عوام میں مرگی کے علاج کا شعور و آگاہی پیدا کیا جانا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر سردار فخرامام نے کہا کہ مرگی کا مرض دماغی امراض میں سب سے اہم اور عام بیماری ہے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر گنگا رام ہسپتال کے نیورالوجی وارڈ میں مرگی کے علاج کے لئے تجربہ کار ڈاکٹر میسر ہیں اور ضروری طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ سیمینار سے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان‘ پروفیسر منظور احمد‘ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اطہرجاوید‘ پروفیسر نعیم قصوری‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورالوجیکل سائنس پروفیسر عاصم نعمان‘ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عدنان اسلم اور دیگر ماہرین نے خطاب کیا اور بتایاکہ مرگی کے مرض کے بارے میں توہمات اور باطل تصورات کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
مرگی کی وجہ کسی قسم کا جادوٹونہ یا آسیب نہیں ہوتا اور نہ ہی تعویذ دھاگے سے اس کا علاج ممکن ہے۔ماہر نیورالوجسٹ کی تشخیص کے بعد تقریباً تین سال میں شفایابی ممکن ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ عمومی طور پر مرگی کے مرض کو ایک سے دومنٹ جھٹکے لگتے ہیں۔ اس صورت میں اسے کروٹ دے کر لٹا دیں۔ گلے سے رومال یا ٹائی وغیرہ اتار دیں۔
دانتوں کو کھول کر پانی ڈالنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ دس منٹ سے زیادہ جھٹکوں کی صورت میں قریبی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ سیمینار میں پنجاب بھر سے ڈاکٹروں اور ماہرین نے شرکت کی۔
#/