ترکی :میں صرف تیرہ سال کی تھی جب شام میںخانہ جنگی شروع ہوئی یہ سال 2011 تھا،میراگھر ایک خوبصورت جگہ پہ واقعہ تھا ہمارے علاقے پہ بمباری کا آغاز خانہ جنگی کے سات ماہ بعد ہوا تھا۔ جنگ اس قدر بڑھ چکی تھی کہ میں نے سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ ایک سال بعد میر ی ماں اور بہنیں اپنے گھر کے تہہ خانے میں دو ہفتوں تک چھپے رہے کیونکہ صدر بشارالاسد کی فوجیں باہر موجود تھیں۔
میرے بھائی کو فٹ بال کھیلتے ہوئے فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا بلاآخر 2013میں شاید ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنا ملک چھوڑ دیا اور ترکی کے پناہ گزین کیمپوں چلے گئے وہاں ہمیں کھانا دیا جاتا لیکن سکول جانے کی سہولت ابھی میسر نہیں آئی تھی۔ میں ترکش اور انگلش دونوں سیکھ رہی تھی۔
پھر ایک دن میری ماں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اور میری بہن کو بہتر مستقبل کے لیے یورپ چلے جانا چاہیے ایک رات ہم نے انسانی سمگلروں کے ذریعے سمندر کے راستے ہونا جانے کی کوشش کی مگر ترکی کی پولیس نے ہمیں پکڑ لیا
آخر کار تیسری کوشش پر میں یونان پہنچنے میں کامیا ب ہو گئی لیکن مشکل تو اب شروع ہوئی تھی ہمیں سویڈن جانا تھا جہاں پھر انسانی سمگلروں کے ہاتھوں ہنگری میں داخل ہوئے ،تیرہ گھنٹوں تک سربیا کے جنگولوں سے گزرے آخر میں سویڈن پہنچ گئے۔
مجھے وہاں سویڈن کے دوستوں نے ہمیں رہائش اور کھانا فراہم کیا سکول بھی مل گیا یہاں مجھے اپنا دوست سروش حسینی ملا،شام میں مری کبھی لڑکوں سے بات نہیں ہوئی کیونکی مجھے لگتا تھا کہ وہ لڑکیوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔یہاں میری ملاقات سروش سے ہوئی مجھے یوں لگا جیسے میں سروش کے لیے ہی اتنا سفر کر کے یہاں پہنچی تھی۔
سروش افغانستان میں پیدا ہوا وہ شرمیلا، سمارٹ اور سمجھدار تھا ہم دونوں کی مائیں ابھی تک ترکی کے پناگزین کیمپوں میں رہ رہی تھیں،اس نے بھی میری طرح جنگ زدہ ماحول دیکھا تھا،دوستی کے دوماہ بعد اس نے مجھے میوزیم چلنے کی دعوت دی اسکے چند دن بعد ہم سینما دیکھنے گئے۔ہمیں اپنی نئی زندگی سے محبت ہے،میں اور سروش اپنے ماضی کو بھولنا چاہتے ہیں،ہم مستقبل میں ایک ہوجائیں گئے ہماری محبت امر ہوگی۔