جس دن یہ کالم شائع ہو گا اس سے ایک دن پہلے 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہوا تھا کیوں ہوا تھا اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور بہت سے زیادہ آنے والے وقتوں میں لکھا جائے گا۔ کچھ تھوڑا بہت سچ حمود الرحمن رپورٹ میں ہے لیکن صرف مقتدر حلقے ہی نہیں بلکہ بحیثیت قوم سچ سننے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی ہم سچ سننا چاہتے ہیں۔ ہم تو اپنی پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر اگر کوئی بندہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں بھی ملا دیتا ہے تو ہم واہ واہ کرنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی بتانے والا بتاتا ہے کہ بھائی میاں دونوں ملکوں کے درمیان ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے تو پھر بھی ہم شرمسار نہیں ہوتے بلکہ ایسی بے سروپا باتوں کا کہ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ان کا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی حال سقوط ڈھاکہ کا ہے ہم نے تو اس وقت ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا لیکن جب دماغ اس قابل ہوا کہ کان پڑی آواز کو سمجھنے لگے تو ہر طرف سے ایک ہی بات سنائی دیتی تھی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو صاحب کا بنیادی کردار ہے۔ کچھ عمر بڑھی اور شعور کی ابتدائی منازل طے کرنی شروع کیں تو پتا چلا کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمن کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ادھر تم اور ادھر ہم اور بس اسی بیان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شروعات ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد پتا چلا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1971میں ایک جنگ بھی ہوئی تھی اور اس میں ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے نتیجہ میں ہندوستان نے 93ہزار پاکستانیوں کو جنگی قیدی بھی بنایا تھا۔ چونکہ شعور ابھی اتنا پختہ نہیں ہوا تھا تو سوچنے لگ گئے کہ بھٹو تو ایک سیاستدان تھا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی جنگ میں شکست کے بعد ہوئی۔ آہستہ آہستہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ عقل سمجھ میں کچھ باتیں آنا شروع ہوئی تو بھٹو صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہونے والے کارنامے جو انھوں نے بہت ہی قلیل مدت میں سرانجام دیئے تھے جیسے جیسے ان کا پتا چلتا گیا تو سقوط ڈھاکہ کے حوالہ سے سوچیں مزید الجھن کا شکار ہو گئیں کہ ایک انسان جس نے ملک و قوم کو آئین دیا کہ یہ وہ دستاویز ہے جو قوم کو متحد رکھنے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بعد اس نے اس ملک کو نیوکلیئر پاور بنایا کہ آج پچاس سال گذرنے کے بعد مختلف ممالک کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی دنیا میں صرف نو ممالک ہی ایٹمی طاقت بن سکے ہیں اور گذشتہ پچاس سال سے ہم اپنے سے دس گنا بڑے ازلی دشمن سے محفوظ ہیں تو اس کی وجہ ہمارا نیو کلیئر پاور ہونا ہی ہے اور اگر کسی کو ہماری اس بات سے اختلاف ہے تو وہ جنرل ضیاء کی کرکٹ ڈپلومیسی کا احوال پڑھ لیں کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر حملے کی خبریں مل رہی تھیں تو جنرل ضیاء کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے ہندوستان گئے اور ائر پورٹ پر جب راجیو گاندھی سے ملے تو ان کے کان میں یہی کہا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ تمہارے پاس ایٹم بم ہے اور تم ہمیں تباہ کر سکتے ہو لیکن یاد رکھو کہ دنیا میں پاکستان کے علاوہ پچاس سے زیادہ اور بھی اسلامی ممالک ہیں ہم بھی نیو کلیئر پاور ہیں اگر ہندوستان تباہ ہو گیا تو دنیا میں دوسرا ہندو ملک نہیں ہے جس پر عینی شاہد کہتے ہیں یہ بات سن کر راجیو گاندھی کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔اس کے علاوہ کسی بھی ملک کی معیشت میں اسٹیل مل بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس کا سہرا بھی بھٹو صاحب کے سر جاتا ہے تو جس شخص نے ملک کے لئے اتنا کچھ کیا ہو تو کیا اسے ملک توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے؟۔
وقت گذرتا گیا اور سقوط ڈھاکہ کے تمام کردار جو پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اور جن کے پاس پس پردہ رہنے کے ہنر بھی تھے اور طاقت بھی لیکن وقت کا جبر ہر ہنر اور ہر طاقت کو منوں مٹی تلے سلا دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ تمام کرداروں کے چہرے بے نقاب ہوتے چلے گئے اور اسی دوران یہ بھی پتا چل گیا کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو بھی شائع نہیں کیا گیا۔ یہی ایک کمیشن تھا کہ جسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور ذمہ داروں کے تعین کے لئے بنایا گیا تھا۔ 80کی دہائی کی ابھی شروعات تھیں
اور جنرل ضیاء کا دور تھا اور 16 دسمبر کا ہی دن تھا اور چونکہ ابھی اس سانحہ کو زیادہ وقت نہیں گذرا تھا اس لئے ابھی زخم بھی تازہ تھے۔ اسی حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں جب ایک سے زیادہ مقررین نے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو شائع کرنے کا مطالبہ کیا اور بعد میں اس رپورٹ کے متعلق بات ہوئی تو احساس ہو گیاکہ اگر اس رپورٹ میں سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار بھٹو صاحب کو قرار دیا گیا ہوتا تو ضیاء حکومت نے تو بھٹو اور بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی تھی لہٰذا اس رپورٹ پر پابندی سے اس بات کی تو اسی وقت سمجھ آ گئی اس سانحہ کے ذمہ دار بھٹو صاحب نہیں بلکہ وہی ہو سکتے ہیں کہ جنھوں نے حمود الرحمن رپورٹ کے شائع ہونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور پھر جب جنرل مشرف کے دور میں یہ کتاب ہندوستان میں شائع ہوئی تو پتا چل گیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں سیاستدانوں کا کردار تو ثانوی حیثیت کا تھا اور اصل ذمہ دار کوئی اور ہی تھے۔
آج اس سانحہ کو 51 سال ہو چکے ہیں باشعور اقوام اس قسم کے سانحات سے سبق سیکھتی ہیں لیکن ہم نے یہ سبق سیکھا کہ تاریخ سے سبق سیکھنے ایسی حماقت کبھی نہیں کرنی اور اس سانحہ کے چند برس بعد ہی ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور اس طے شدہ امر کے باوجود بھی لگایا کہ مارشل لاء کے دوران صوبائی اور لسانی تفریق میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوا لیکن ہم اپنی حماقتوں کو عقل کا نام دے کر بہلاتے رہے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ تاریک دور کے بعد 1988میں بظاہر جمہوری دور شروع ہوا لیکن اصل طاقت غیر جمہوری قوتوں کے پاس ہی رہی اور پھر12اکتوبر 1999کو ملک پر ایک مرتبہ پھر براہ راست آمرانہ دور مسلط کر دیا گیا اور 2008میں جب دوبارہ جمہوری دور شروع ہوا تو مداخلت کا سلسلہ جاری رہا کہ جس کا اب اقرار بھی کیا جاتا ہے۔ یہ مداخلت اگر درست ہوتی اور اس کے ملک و قوم کے مفاد میں مثبت نتائج نکلتے تو پھر مداخلت کرنے والوں کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ جو ہو چکا وہ ہو چکا لیکن اب اس مداخلت کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ مونس الٰہی کے بیان کے بعد مستقبل ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا مداخلت بند ہو گئی ہے یا نہیں لیکن اس وقت ملک جس معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اس بحران کا سبب بننے والے پیادے اور بادشاہ سمیت تمام مہرے 2018کے الیکشن کے نتائج کی پیداوار ہیں اور اسی سے با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے ہماری سیاسی، سول اور ملٹری قیادت جس میں عدلیہ بھی شامل ہے اس نے کیا سیکھا ہے۔